حمیرا علیم
فیس بک پر لاہور کے ایک پوش ایریا کے اسکول کی لڑکیوں کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک لڑکی بہن اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر اپنی ایک کلاس فیلو کو بری طرح پیٹ رہی ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی بھی رپورٹر یا چینل نے حتمی طور پر اس لڑائی کی وجہ تو نہیں بتائی مگر کچھ رپورٹس کے مطابق جس لڑکی کو پیٹا جا رہا ہے اس نے مارنے والی ساتھیوں کو ڈرگز لینے یا شاید الکحل پینے سے منع کیا تھا جس پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس چھوٹی سی خبر میں کئی چیزیں قابل فکر ہیں۔ والدین جب بھی اپنے بچوں کو کسی تعلیمی ادارے میں بھیجتے ہیں تو وہ اس ادارے کی انتظامیہ پر بھروسہ کر کے اپنے بچے 6-7 گھنٹوں کے لیے ان کے حوالے اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کریں انہیں اخلاق سکھائیں ہنر سکھائیں، اس کے عوض وہ انہیں نہ صرف ماہانہ بھاری رقم ادا کرتے ہیں بلکہ سالانہ بھی کئی طرح کے فنڈز ادا کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ اس ادارے کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بااحسن طریقے سے نبھائے مگر سوشل میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والی ویڈیوز سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے تعلیم و تربیت کے علاوہ ہر طرح کی غیراخلاقی سرگرمیاں سکھا رہے ہیں۔ نشہ، نامحرموں میں دوستی، ناجائز تعلقات، کلاسز بنک کر کے ڈیٹ پر جانا، کالج یونیورسٹی سے بناء والدین کو بتائے کسی کے ساتھ چلے جانا وغیرہ۔
آج کل اے آر وائی پر "پنجرہ” نامی ڈرامے میں بھی یہی دکھایا جا رہا ہے کہ کیسے چھوٹے چھوٹے بچے اسکول میں ڈرگز اسپلائی کرتے ہیں اور ان کے والدین انہیں سمجھانے ڈانٹنے کی بجائے انہیں سپورٹ کرتے ہیں اور جب پولیس یا اسکول کا اسٹاف ان بچوں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو انتظامیہ ان پر دباؤ ڈالتی ہے اور انہیں کسی بھی قسم کی کاروائی سے روک دیتی ہے۔
کسی دور میں تعلیمی اداروں کی ریپوٹیشن یہ ہوتی تھی کہ وہاں داخل ہونے والا بچہ ہر لحاظ سے مکمل انسان بن کر نکلے گا۔ کوئی استاد اگر کسی بچے کو اسکول سے باہر بھی کوئی غلط کام کرتے دیکھا لیتا تو اسی جگہ کان کھینچتا تھا اور شاگرد کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اف بھی کرتا۔
اساتذہ معمولی سی غلطی پر بچوں کی ہڈیاں توڑ دیتے تھے مگر والدین اعتراض نہیں کرتے تھے۔ اگر بچہ گھر پر شکایت کرتا تو والدین اسے ہی الزام دیتے تھے کہ تم نے ہی شرارت کی ہو گی۔ اساتذہ کو بالکل والدین کی طرح جانا جاتا تھا جبکہ آج کل کے بچے استاد کو اپنا نوکر سمجھتے ہیں جس کی تنخواہ وہ ادا کرتے ہیں۔
ادارے بھی اساتذہ کو ہائر کرتے ہوئے انہیں بتا دیتے ہیں کہ بچے ان کے کسٹمر ہیں اور کسٹمر ہمیشہ درست ہوتا ہے اس لیے وہ جو بھی کریں انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ اور اگر وہ کسی بچے کو ڈانٹ بھی دیں تو فوراً وارننگ لیٹر بھی مل جاتا ہے اور والدین بھی شکایت لے کر آ جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ آنکھ کان بند کر کے اپنے لیکچرز ڈلیور کرتے ہیں اور گھر کو سدھارتے ہیں۔ ایسے میں بچے ہر طرح کی غیراخلاقی سرگرمیوں کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔
میرا بیٹا سٹی اسکول میں ٹو کلاس میں تھا، اس کی ایک کلاس فیلو نے ٹیچر کی پے پرس سے نکال لی، ساری کلاس اس کی گواہ تھی جب اس کے والدین جو کہ ڈاکٹر اور لائر تھے، ان کو بلایا گیا تو وہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق پرنسپل پر چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی بچی پر الزام لگا رہی ہیں۔ پرنسپل نے درخواست کی کہ آپ بچی کا بیگ چیک کیجئے اگر پیسے نہ ملے تو ٹھیک ہے اور اگر مل جائیں تو ٹیچر کو لوٹا دیجئے گا۔ جب بچی کے بیگ سے پیسے نکل آئے تو بھی بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگے کہ کسی اور بچے نے ڈال دیئے ہوں گے۔
اگرچہ قانونی طور پر کسی تعلیمی ادارے میں پان سگریٹ بیچنا بھی جرم ہے پھر بھی ہمارے بچوں کو کلاسز کے اندر ہر طرح کی ڈرگ مل رہی ہے۔ ایسے میں ہماری نئی نسل قوم کے معمار کیسے بنیں گے؟
ستمبر 2022 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے کہا تھا کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید اور فروخت کی پاداش میں کم از کم دو برس قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید جیسی سزائیں جلد ہی متعارف کرائی جائیں گی، تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کے لیے ایک آزاد ادارہ اور اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے گا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
کوئی قانون ہو یا نہیں یہ تعلیمی ادارے اور اس کی انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھے اور انہیں مضبوط کردار کا انسان بننے میں مدد دے۔