کان مہترزئی: متاثرہ زمیندار تاحال حکومتی امداد کے منتظر
رفیع اللہ مندوخیل
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور ژوب قومی شاہراہ پر تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سرد ترین علاقے کان مہترزئی کے مون سون بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ زمیندار کئی ماہ گزرنے کے باوجود آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں، ان کی فصلیں اور گھر سب کچھ پانی میں بہہ گئے، اور آج شدید سردی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
صوبے کے اس سرد ترین علاقے کے مٹی اور پتھروں سے بنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے اور متاثرہ حصوں کو قابل استعمال بنانے کیلئے حکومتی سطح پر تاحال کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ بعض صاحب استطاعت لوگوں نے سردی سے بچنے کیلئے اگرچہ اپنے گھر تعمیر کئے ہیں تاہم علاقے کے بیشتر لوگ آج بھی حکومتی امداد کے منتظر اور یہ سخت ترین سردی بھی کھنڈرات اور تباہ حال مکانوں میں گزارنے پر مجبور ہیں۔
کلی سوری مہترزئی کے رہائشی نظام الدین گزشتہ مون سون بارشوں کے باعث ہونے والی تباہی کے ہزاروں متاثرین میں سے ایک ہیں۔ ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مون سون کی طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث نہ صرف ان کے گھر بلکہ زرعی اراضی اور سیب کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا، ان کے پانچ سو جبکہ پوری یونین کونسل سوری مہترزئی میں بیس سے پچیس ہزار سیب کے درخت اب مزید پھل دینے کے قابل نہیں رہے۔
‘ہمارا گاؤں سوری مہترزئی ایک برساتی ندی کے کنارے آباد ہے جہاں پچیس سے تیس فٹ بلند پانی کا ریلہ گزرا جو اپنے ساتھ گاؤں کے کچے مکانات، کھڑی فصلوں، حفاظتی بندوں اور دہائیوں پرانے درخت اکھاڑ کر لے گیا، کان مہترزئی بازار سے ہمارے گاؤں جانے والی سڑک جو پہلے ہی خراب تھی، اب سفر کے قابل نہیں رہی، پانی کی وجہ سے جگہ جگہ ٹوٹ چکی ہے، اب گاؤں تک پہنچنے کیلئے لوگ متبادل راستوں کا سہارا لیتے ہیں، خواتین اور مریضوں کو سفر کرتے وقت شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’ انہوں نے بتایا۔
کان مہترزئی بازار کے قریب پہاڑ کے دامن میں واقع گاؤں اسوزئی تلری کے رہائشی محمد آمین مہترزئی بھی نظام الدین کی طرح متاثرین میں شامل ہیں، ان کا مکان پانی میں بہہ گیا اور وہ اب اس وقت متبادل گھر میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔
محمد آمین حکومتی اداروں اور ضلعی انتظامیہ سے شکوہ کناں ہیں کہ ان کی مناسب طریقے سے دادرسی نہیں کی گئی اور نہ ہی تاحال نقصانات کے ازالے کیلئے متاثرین کی مدد کی گئی ہے۔
‘ہمارا علاقہ پہلے ہی سے نہایت پسماندہ اور تمام ضروریات زندگی سے محروم ہے، رہی سہی کسر بارشوں اور سیلابی ریلوں نے پوری کر دی، حکومت کی تھوڑی سی توجہ اور امداد بھی متاثرین کی اس مشکل گھڑی میں احساس محرومی دور کر سکتی ہے، ہمارے گھر کے قریب گرلز سکول کے کمرے پانی سے بھر گئے، پانی کو تو اب نکالا جا چکا ہے لیکن تاحال اسے قابل استعمال نہیں بنایا جا سکا، گاؤں کی بچیاں اب بھی اپنی پڑھائی کی منتظر اور حکومتی امداد کی راہ تک رہی ہیں، ان کا تعلیمی سال ضائع ہو چکا ہے۔’ محمد آمین نے ٹی این این کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
خیال رہے کہ کان مہترزئی بلوچستان کا سرد ترین اور بلندی پر واقع علاقہ ہے، یہاں کا درجہ حرارت سردی اور برف باری کے باعث منفی سولہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں تبت کے بعد ایشیاء کا دوسرا اونچا ریلوے اسٹیشن بھی موجود ہے۔ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں لوگ نہ صرف مٹی اور گارے کے مضبوط مکانات تعمیر کرتے ہیں بلکہ برف سے نمٹنے کیلئے چھتوں کے اوپر کھردرے چادر کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
بلوچستان کا یہ علاقہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کو اعلیٰ معیار کے سیب درآمد کرنے کے حوالے سے بھی مشہور ہے کیونکہ سرد علاقوں کے سیب ذائقے اور رس کے لحاظ سے منفرد ہوتے ہیں۔
بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ نقصانات کے ازالے کیلئے ممکن اقدامات تو اٹھا رہی ہے تاہم متاثرین کی امداد اور مجموعی ازالے کیلئے بیرونی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ صوبہ پہلے سے ہی غربت کا شکار ہے۔