”لڑکی گاڑی ڈرائیو کرتی ہے تو لوگ اسے گھورتے ہیں”
حدیبیہ افتخار
آج میں درود شریف کا ورد کرتے ہوئے اپنے گھر کے لان میں ٹہل رہی تھی کہ میری نظر ایک ایسے پرندے پر پڑی جو ہوا میں یوں اڑ رہا تھا جیسے رقص کر رہا ہو۔
وہ پرندہ فضا میں جھوم رہا تھا اور اس بات کا جشن منا رہا تھا کہ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور اپنے آپ پر صرف اور صرف اپنا اختیار رکھتا ہے۔
اس پرندے کو دیکھ کر مجھے اس پر رشک ہوا کہ یہ اپنی مرضی کا مالک تو ہے، سوچا کہ وہ کیوں کھلی فضا میں اڑنے کے مزے نہ لے، وہ تو وہ خوش قسمت مخلوق ہے جو لوگوں کے نہ سمجھ آنے والے رویوں اور ان کی گھسی پٹی سوچ سے آزاد جو ہے، لوگوں کے تنگ ذہن اور رویوں کی کوئی فکر نہیں ہے، یہ اللہ تعالی کی معصوم مخلوق ہے اس لئے تو یوں آسمان کا رخ کرتا ہے جیسے یہ پوری دنیا اس کی ہو۔
مفاد سے ڈھکی اس دنیا میں وقت گزارنا بڑے حوصلے کی بات ہے، ان لوگوں کے درمیان رہنا جو ہر وقت آپ کی سوچ کو اپنے اختیار میں کرنے کی کھوج میں لگے ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ تو بس اک سوچ ہی رہ جاتی ہے۔
ہر انسان بچپن ہی سے دل میں بے شمار خواہشیں لئے پھرتا ہے، وہ بہت کچھ کرنا چاہتا/چاہتی ہے لیکن جب بڑا/بڑی ہو جاتا/جاتی ہے تو اس کے بہت سے ارمان سینے میں دفن ہی رہ جاتے ہیں، جب جوان ہوتا ہے تو اس وقت ایسے نشے میں ڈوبا ہوتا ہے کہ اسے اس ظالم معاشرے کا بھی خیال نہیں رہتا جہاں اسے اپنے لئے سوچنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
انسان اس وقت اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے جب اپنے خوابوں کو وہ حقیقت کا روپ نہیں دے سکتا، وہ دیکھتا ہے کہ اس کے خواب ٹوٹ رہے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا اور اپنے ہی ہاتھوں سے ان خوابوں کی راکھ اڑا دیتا ہے۔
تب وہ سوچتا ہے کہ میں نے اپنے لئے سوچا ہی کیوں جب اس کی سوچ کو محض ایک سوچ ہی رہنا تھا۔
سوچ میری تو اختیار تمہارا کیوں؟
مجھے بچپن سے آسمان میں اڑان بھرتی ہر چیز سے لگاؤ ہے، آج بھی جب میں آسمان میں جہاز اڑتا دیکھتی ہوں تو تب تک نظریں نہیں ہٹا پاتی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔
بچپن سے میں نے کامیاب زندگی کے جو خواب دیکھے تھے اور میں ان تمام خوابوں کو پورا کرنے کی جستجو میں مگن تھی اب جب میں بڑی ہو گئی ہوں اور وہ خواب پورے کر سکتی ہوں تو اس سماج کی ظالم روایات اب ان خوابوں میں رکاوٹ بن گئی ہیں۔ اور تو اور میری ڈرائیونگ کرنے کی خواہش پر بھی پانی پھیر دیا گیا کہ لڑکی گاڑی ڈرائیو کرتی ہے تو لوگ اسے گھورتے ہیں۔
مختصراً یہ کہا گیا کہ تمہیں کچھ سوچنے کی کیا ضرورت، ہم ہے ناں آپ کی بہتری کے لئے سوچنے والے!
تم مت سوچو، ہم نے سوچ رکھا ہے
تم ابھی اتنا نہیں سمجھتی، تمہیں باہر کی دنیا کا کیا پتہ، تمہیں کیا پڑھنا ہے ہم نے سوچ رکھا ہے، تمہاری شادی کس سے ہونی ہے یہ ہم طے کریں گے، ہم تو آپ کی اچھائی چاہتے ہیں بس آپ خود کچھ نہ سوچیں!
یہ وہی جملے ہیں جو ہمارے معاشرے میں کئی لڑکیاں سنتی آئیں ہیں اور بہت سوں کو سننے کو ملیں گے لیکن اس ڈر سے کہ شاید ان کا جینا محال کر دیا جائے وہ اس موضوع پر بات بھی نہیں کرتیں۔
ہماری سوچ ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، اچھا اور مثبت سوچنا اور پھر اس پر عمل کرنا اور کروانا بہت ضروری ہے۔
بیٹیوں کو اختیار دیں، ان کو سوچنے کا حق دیں اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کا ساتھ دیں۔ وہ خوش ہوں گی تو آپ کے گھر کو جنت بنا کے رکھیں گی۔
یاد رکھیں! باغ تب ہی خوبصورت لگتا ہے جب اس کے پھول کِھلے ہوں۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔