لائف سٹائل

موسمیاتی تغیرات میں میتھین کا کردار، سدباب کیسے کریں؟

حمد نواز

موسمیاتی تغیرات فضا میں مختلف گیسوں کے اخراج کا نتیجہ ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین (CH4) زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ میتھین گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت زیادہ انفراریڈ شعائیں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن مقدار میں کم ہونے اور فضا میں اس کی زندگی کم ہونے کی وجہ سے کم اہمیت کا حامل ہے پھر بھی ایک مالیکیول جب فضا میں داخل ہو جاتا ہے تو تقریباً 12 سال تک فضا میں موجود رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے اس کے اخراج میں کمی قابل توجہ ہے۔ سنہ 2000 سے پہلے عالمی سطح پر اس کا 16 فیصد اخراج انسانی ذرائع سے ہوتا رہا جس میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق میتھین کا اخراج انسانی ذرائع سے 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والی میتھین 40 فیصد ہے، مجموعی طور پر 580 ملین ٹن سالانہ میتھین فضا میں مختلف ذرائع سے شامل ہوتی ہے۔

پاکستان میں دنیا کا 0.4 فیصد میتھین کے ذخائر موجود ہیں اور دنیا میں تیسویں نمبر پر ہے جبکہ فضا میں میتھین گیس کے اخراج کے لحاظ سے دسویں پوزیشن پر ہے۔ پاکستان نے 2021 میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز کے چھبیسویں اجلاس میں میتھین گیس کے اخراج میں 30 فیصد تک کمی لانے کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں اور مسلسل اس کوشش میں ہے کہ میتھین کے اخراج میں کمی کر کے موسمیاتی تغیرات کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالے۔

میتھین گیس کیسے بنتی ہے؟

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ریسرچ سکالر عبدالبصیر کے مطابق جب نامیاتی فضلہ جیسے کہ خوراک، زرعی باقیات (گندم، چاول اور مکئی کے بھوسے وغیرہ) ویسٹ، اوپن ائیر سیورج نظام، لکڑی یا کاغذ گلنے سڑنے لگتے ہیں تو ہوا میں میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ آئل اینڈ گیس سسٹمز اور زراعت کے بعد دنیا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی تیسری بڑی وجہ نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا پھر لینڈ فِلز ہیں۔ لینڈ فِلز اس نامیاتی ملبے کو کہا جاتا ہے جو زمین بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین کا حصہ صرف 25 فیصد ہے اور اخراج کے بعد یہ تقریباً بارہ سال تک ہوا میں رہتی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہوا میں یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 21 سے 23 گنا زیادہ گرمی یا حدت کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ تحقیق کاروں کے مطابق موجودہ عالمی حدت میں 25 فیصد کردار اُس میتھین گیس کا ہے جو انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔

یونائٹڈ نیشن کے ماحولیاتی پروگرام کے 2021 میں سامنے آنے والی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائڈ کی نسبت میتھین گیس کے موسمیاتی تغیرات کے اثرات میں 80 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اس گیس کا موسمیاتی تغیرات میں مجموعی کردار 30 فیصد پہنچ چکا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر فروری 2022 میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز کے چھبیسویں اجلاس میں یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ 2030 تک میتھین کے انسانی ذرائع سے پیداوار میں 30 فیصد تک کمی لائی جائے گی اور اگر یہ کمی 45 فیصد پہنچ گئی تو زمین کے اوسط درجہ حرارت میں 0.3 ڈگری سینٹی گریڈ تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ کینیڈا کی حکومت نے 2050 تک میتھین کے اخراج میں 70 فیصد تک کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے تو کیا میتھین گیس خطرناک نہیں؟

اس سوال پر پشاور یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا تھا کہ فضا میں دو عوامل قابل ذکر ہیں: ایک تو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہے اور دوسرا اوزون تہہ میں بدلاؤ لانے والی اشیاء ہیں، ان دونوں عوامل سے نہ صرف فضا کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بارشوں میں تعطل کا باعث بھی ہیں، گرین ہاؤس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ، ہیلوجینیٹڈ گیسیں، نائٹروجن آکسائیڈ اور فضا میں موجود آبی بخارات کے علاوہ دیگر گیسیں قابل ذکر ہیں، دیگر گیسوں میں زمین کی سطح پر پائے جانے والا اوزون، ہائیڈروکاربن اور ایروسول شامل ہیں، ان میں سے زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر بحث کی جاتی ہے اور اس کے تدارک کیلئے جنگلات کے فروغ پر زور دیا جاتا ہے باقی گیسوں کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بہت بڑی مقدار میں خارج کی جاتی ہے.  جس کا موسمیاتی تغیرات میں بہت بڑا حصہ ہے.  یہ حصہ پچاس سے ساٹھ فیصد تک ہے جبکہ چالیس فیصد حصہ باقی سارے مذکورہ گیسیں مشترکہ طور پر ڈالتی ہیں، میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بعد حصے کے حساب سے دوسرے نمبر پر ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی گرمی کی شدت میں اضافہ کرنے کی خصوصیت کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 25 فیصد زیادہ ہے، چونکہ اس کی مقدار فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت بہت کم ہے اس لئے اس کا حصہ موسمیاتی تغیرات میں صرف چار سے نو فیصد تک تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور اس وقت 30 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق شروع میں اس پر بہت کم بحث کی جاتی تھی لیکن اب میتھین بھی زیر بحث آنے لگی ہے، میتھین کا درجہ حرارت بڑھانے میں کردار تو کم ہے لیکن بارشوں میں تخفیف یا تبدیلی کے لحاظ سے اس کا رول اہم ہے،  یہ چونکہ ہلکی گیس ہے اس لئے یہ ہمارے ارد گرد نہیں رہتی بلکہ اوپر جا کر زمین کے نزدیک والی تہہ کی بالائی سطح پر رہتی ہے، فضا کی اس تہہ کو ٹروپو سفیئر بھی کہا جاتا ہے، اس طرح میتھین گیس ٹروپوسفیئر کا بالائی حصہ گرم رکھتی ہے اور آبی بخارات کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتی جو کہ بارشوں میں کمی یا تاخیر کا سبب بنتے ہیں، میتھین قدرتی طور پر پائے جانے والی گیس ہے، زیرزمین ذخائر کے علاوہ یہ زمین پر بھی پیدا ہوتی رہتی ہے اس لئے بڑا حصہ قدرتی طور پر فضا کا حصہ بنتا رہتا ہے۔

ریسرچ سکالر عبدالبصیر کے مطابق میتھین کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت ہے جہاں سے 40 فیصد تک میتھین پیدا ہو کر فضا میں مسلسل شامل ہوتی رہتی ہے، اس میں 32 فیصد تک مال مویشیوں سے آتا ہے اور بقیہ 8 فیصد ان کھیتوں سے آتا ہے جہاں پانی زیادہ عرصے کیلئے ایک جگہ کھڑا رہے، اس سلسلے میں چاول کی کاشت ایک بڑا ذریعہ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر یہ انسانوں کی پیدا کردہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 16 فیصد ہے، میتھین خارج کرنے والی انسانی سرگرمیوں میں قدرتی گیس کے نظام سے لیکیج اور مویشیوں کی پرورش شامل ہیں۔

کیا میتھین گیس کے اخراج میں کمی لائی جا سکتی ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کہتے ہیں کہ کوشش کریں تو یہ ممکن ہے، ایک اندازے کے مطابق انسانی سرگرمیوں سے میتھین کے اخراج کو دس سال کے اندر اندر 45 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے، اگر یہ کمی 2022 اور 2032 کے درمیان ممکن ہوئی تو 2045 تک تقریباً 0.3 ڈگری تک درجہ حرارت میں کمی ممکن ہے جو کہ ایک بڑا سنگ میل ہو گا اس طرح کرنے سے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کرنے میں مدد ملے گی اور پیرس معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کرہ ارض کو پٹری پر ڈال دیا جائے گا، اس سے پیدا ہونے والی گرمی کی شدت میں کافی حد تک کمی آئے گی اور ساتھ ساتھ گرمی سے 73 بلین جو کام کرنے کے گھنٹے ضائع ہوتے ہیں، وہ بچائے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ جو  25 ملین ٹن تک غذائی پیداوار کے نقصان کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

میتھین کے اخراج میں کیسے کمی لائی جا سکتی ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق تیل اور قدرتی گیس کی تیاری، ذخیرہ کرنے اور نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والے آلات کو اپ گریڈ کرنے سے میتھین کے اخراج میں اہم کردار ادا کرنے والے بہت سے لیکیجیز کو کم کیا جا سکتا ہے، کوئلے کی کانوں سے میتھین کو بھی پکڑ کر توانائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، اگر پاکستان کی مثال لی جائے تو یہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے، ملک بھر میں خستہ حال گیس ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک، 13452 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن پائپ لائنز اور 177029 کلومیٹر طویل ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک ایک ماحولیاتی خطرہ ہے، بڑے پیمانے پر احتیاطی تدابیر کر کے اس کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق اس بڑے نیٹ ورک کو حدود میں لانے اور لیکیج کو کم کرنے کیلئے 500 ملین امریکی ڈالرز درکار ہیں، ایجنسی برائے عالمی توانائی کے مطابق پاکستان 7.3 میلئن ٹن میتھین کے اخراج کے ساتھ دنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔

پاکستان میں گیس کے ذخائر اور استعمال کا صورت حال

پاکستان میں 24700,000 ملین مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں، اس لحاظ سے دنیا میں تیسویں پوزیشن پر ہے، یہ دنیا کی کل گیس کا 0.4 فیصد ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ 12 سال تک پاکستان کو گھریلو اور صنعتی سطح پر گیس فراہم کرنے کیلئے کافی ہے۔

ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق پاکستان ان 100 ممالک میں شامل ہے جس نے کانفرنس آف پارٹیز کے چھبیسویں اجلاس میں میتھین کے اخراج میں کمی کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق 18 فیصد تک گیس لیک کی صورت میں ضائع ہو جاتی ہے، اس پر کام کرتے ہوئے 2000 میں 13 فیصد جبکہ 2020 تک 6.5 فیصد کیا جا چکا ہے لیکن گیس کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اس پر مزید کام کرنا ہو گا اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق اس کو 0.5 اور 5 فیصد کے درمیان لانا ہو گا، اس کے دو فائدے ہوں گے. ایک تو گیس کی بچت اور دوسرا موسمیاتی تغیرات سے متعلق اثرات میں کمی ہے، پاکستان میں قدرتی گیس کا 27 فیصد حصہ بجلی بنانے پر خرچ ہوتا ہے، 23 فیصد کارخانوں کو دیا جاتا ہے، 18 فیصد کھاد بنانے، ایک فیصد سیمنٹ انڈسٹری، 9 فیصد گاڑیوں میں سی این جی کیلئے جبکہ 22 فیصد گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں جس میں 3 فیصد کمرشل مقاصد کیلئے اور 19 فیصد گھروں میں استعمال ہوتی ہے۔

ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے 27 فیصد جو کہ بجلی بنانے کیلئے استعمال ہوتی ہے، اس پر غور کر کے شمسی توانائی پر جانے سے بچت ہو سکتی ہے اور گاڑیوں کو ہائبرڈ ٹیکنالوجی پر منتقل کر کے کافی ساری گیس کی بچت ممکن بنائی جا سکتی ہے لیکن ساتھ ساتھ ترسیل کے دوران ضائع ہونے والی گیس پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیرات میں اپنا حصہ ڈالیں جس میں گھریلو صارفین کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔

کسانوں کی ٹریننگ اور آگاہی سے میتھین گیس میں کمی لائی جا سکتی ہے؟

ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق زراعت۔۔ کھیتوں اور مال مویشی۔۔ سے قدرتی طور پر میتھین گیس پیدا ہوتی ہے، ایسا تو نہیں کر سکتے کہ مال مویشی نہ پالیں یا فصلیں نہ اگائیں اور یا ویسٹ لینڈز کو بند کر دیں لیکن کسانوں کو کھاد کے موثر اور ضرورت کے مطابق ستعمال کیلئے اگاہی یا تربیت دے سکتے ہیں، کھاد کے استعمال سے متعلق حکمت عملیوں میں ردوبدل کر کے میتھین کی پیداوار کو کم کیا جا سکتا ہے، مزید برآں جانوروں کو کھانا کھلانے کے طریقوں میں ترمیم سے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے۔

میتھین گیس کا زیادہ تر حصہ ایسی جگہوں سے آتا ہے جو انسان کے پہنچ سے باہر ہیں لیکن اس کے اخراج کے ذرائع کا کافی حصہ انسان کے دسترس میں ہے، اگر ہم اس کے اخراج میں 40 سے 45 فیصد تک کمی کریں تو یہ ممکن ہے، اس کیلئے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑے گا بس اتنا کرنا ہے کہ جو قدرتی گیس ہمارے ہاتھ میں ہے اس کا درست استعمال کریں،  گندے نالوں کی وقتاً فوقتاً صفائی کریں، زراعت میں استعمال ہونے والی کھاد میں اعتدال لے آئیں اور گھریلو کچرے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button