”آٹا نہیں ہے تو کیک کھا لیں”
حمیرا علیم
پاکستانی عوام اکثر کسی نہ کسی بحران اور مصنوعی شارٹیج کا شکار رہتی ہے؛ کبھی بازار سے چینی غائب ہو جاتی ہے تو کبھی آٹا، جب کبھی تاجر حضرات کسی چیز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو اسے ذخیرہ کر لیتے ہیں اور یہ بیان دے دیتے ہیں کہ ہمیں پیچھے سے ہی نہیں مل رہی تو ہم کیا کریں۔ اب یہ "پیچھے” کون ہے کہاں ہے؟ یہ ایک معمہ ہے۔
ریٹیلر کا کہنا ہے کہ آڑھتی نہیں دے رہا، آڑھتی کہتا ہے کہ ملز نہیں دے رہیں اور ملز کا کہنا ہوتا ہے کہ کسان یا فارم ہاؤس مالکان نہیں دیتے۔ اب اللہ جانے کون یہ ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ جو کوئی بھی ہے خمیازہ تو بیچاری عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ناں!
جب کبھی چینی، آٹا، آئل، پیاز، ٹماٹر یا کسی بھی چیز کی قیمت بڑھتی ہے یا اس کی قلت ہوتی ہے تو ذمہ داران یعنی حکمران خصوصاً اس چیز سے متعلقہ وزیر صاحب عوام کو مفت مشورہ دیتے نظر آتے ہیں: "ٹماٹر مہنگے ہیں تو دہی استعمال کر لیں۔” "چینی چھوڑ دیں ویسے بھی اس سے بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔” "بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں یا کم آبادی کے ممالک میں شفٹ ہو جائیں۔” یعنی آپ کچھ بھی کر لیں ان لوگوں کے آرام سکون میں خلل نہ ڈالیں۔
اب بھی شاید ان جینیسز کی طرف سے فرانسیسی شہزادی والا مشورہ آئے گا کہ آٹا نہیں ہے تو کیک کھا لیں۔ برطانیہ سے امریکہ کی جنگ آزادی میں فرانس نے کھل کر امریکہ کی مدد کی جس کے نتیجے میں بالآخر 1776ء میں امریکہ آزاد ہو گیا لیکن یہی بے جا حمایت فرانس میں بھی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔ فرانس کی اشرافیہ اور کلیسا نے آپس میں گٹھ جوڑ کر رکھا تھا اور تمام زمینوں پر قابض تھے، خود ٹیکس نہیں دیتے تھے پر آئے روز عوام پر نیا ٹیکس لگا دیتے اور قانون کا یہ حال تھا کہ پروانہ گرفتاری پر شخص کا نام، مدت اور قید خانہ لکھ کر پولیس کے حوالے کر دیا جاتا اور لوگوں کو بغیر وجہ بتائے گرفتار کر کے قید کر لیا جاتا۔
جنگِ آزادی میں امریکہ کی مدد کرنے کے سبب فرانس کا خزانہ خالی ہو چکا تھا؛ مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی، غریب غریب تر اور اشراف امیر ترین ہوتے جا رہے تھے لہذا فیصلہ کیا گیا عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں۔
5 مئی 1789 کو ٹیکس کے نفاذ کے لئے پارلیمان کا اجلاس بلایا گیا، پارلیمان کے 3 حصے تھے؛ ایک حصہ امرا، دوسرا حصہ کلیسا اور تیسرا حصہ عوام کا تھا جو 97 فیصد تھا۔ عوام کے نمائندوں کے اختیارات محدود تھے، وہ اشرافیہ سے دبے دبے رہتے تھے مگر اس دن ان کی آوازیں اونچی ہونے لگیں، انہوں نے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا مگر بادشاہ نے ان کا اختلاف ماننے سے انکار کر دیا تو جون 1789 میں عوام کے نمائندوں نے اپنا نام قومی اسمبلی رکھ کر اپنا اجلاس پارلیمان کے باہر کیا۔
بادشاہ نے پولیس اور فوج کو انہیں وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا مگر انہوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ڈیڑھ ماہ بعد غیرملکی سپاہیوں کی مدد سے انھیں وہاں سے منتشر کر کے قید کر لیا گیا۔ بادشاہ مطمئن ہو گیا مگر اس سے اگلے روز عوام کا ہجوم "بستیل” قید خانے پر حملہ آور ہو کر تمام لوگوں کو آزاد کروا کر جیل میں موجود تمام اسلحہ ساتھ لے گیا۔
اس حملے کے نتیجے میں بادشاہ کی حکومت پر گرفت کمزور ہو گئی، دیہات میں بھی بغاوت نے سر اٹھایا، بالآخر جون 1791 میں بادشاہ اور ملکہ بھیس بدل کر ملک سے فرار ہونے لگے تو عوام نے پکڑ کر قید کر لیا۔
عوام کی اسمبلی نے جمہوری دستور بنایا، عوامی عدالتیں لگیں جنہوں نے ہر اس شخص کا سر قلم کر دیا جس کے ہاتھ نرم یا کالر صاف تھے کیوں کہ یہ اشرافیہ کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ کے سر قلم کر دیئے گئے۔ 1793 سے 1794 تک تقریباً 40 ہزار افراد کو قتل کیا گیا اور اس قتلِ عام کے نتیجے میں جدید فرانس کا آغاز ہوا۔
مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم وہ خودغرض اور بے حس قوم ہیں جو قوم کہلانے کے حقدار ہی نہیں ہیں۔ فرانس ہو یا ترکی، امریکہ ہو یا ایران انقلاب اور تبدیلی تبھی آتی ہے جب عوام اتفاق رائے کے ساتھ نکلے اور اپنا حق لے لے۔ ہم تو وہ بدنصیب قوم ہیں جو دین کی کسی بات پر بھی متفق نہیں ہوتے تو انقلاب لانے کے لیے کیا جمع ہوں گے۔
ہم میں سے ایک طبقہ اس وقت کوئی چیز خریدنا بند کرتا ہے جب وہ کوئی چیز افورڈ نہیں کر سکتا۔ دوسرا طبقہ اس لیے خریداری بند نہیں کرتا کہ وہ افورڈ کر سکتا ہے۔ درمیانی طبقے کا المیہ یہ ہے کہ وہ سوچتا ہے ہم کماتے کس لیے ہیں؟ پاپی پیٹ کی خاطر چنانچہ وہ چاہے افورڈ کر سکیں یا نہیں چیز خریدتے ضرور ہیں۔
لیکن اس بار مسئلہ یہ ہے کہ روٹی کے بغیر زندہ رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے عوام بیچاری کے پاس آٹا خریدے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ وہ روٹی کی جگہ کیک نہیں کھا سکتے اسی لیے کبھی آٹے کے حصول کے لیے لگی لائن میں کوئی باپردہ خاتون ہراسگی کا شکار ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی اس جم غفیر میں دھکم پیل کے دروان کوئی غریب جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اور کوئی اس قدر بے خوف ہو جاتا ہے قانون شکنی پر آمادہ ہو کر بھرے بازار میں سستے آٹے کے ٹرک کو ہی لوٹ لیتا ہے۔