ریڈیو ملازمین کو کیوں بھیک مانگنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟
ڈاکٹر ہمایون ہما
پاکستان بنا تو ملک کی معاشی حالت دگرگوں تھی؛ دفاتر میں پیپر پن تک موجود نہ تھے، ببول کے کانٹے استعمال کیے جاتے تھے۔
حکومت کو پہلا بجٹ بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ اس وقت کے بااثر صنعت کاروں نے بجٹ کے لیے رقم فراہم کی اور ملک کے پہلے بجٹ کا حجم ملک کے کسی بھی نجی ادارے سے کم تھا۔ مگر اس تمام معاشی بدحالی کے باوجود سرکاری ادارے کام کر رہے تھے۔ نہ تو کسی سرکاری ملازم کی تنخواہ روکی گئی تھی اور نہ پنشنروں کی پنشن ادا کرنے میں تاخیر ہوئی تھی۔
ملازمتیں مل جاتی تھیں۔ تعلیم یافتہ جوان کو روزگار کے حصول میں کوئی مشکل نہ تھی۔ سٹیٹ بینک فنکشنل ہو چکا تھا اور دیگر بینکوں کا قیام بھی عمل میں آ رہا تھا۔ ڈالر کی قیمت چار روپے تھی اور سونا اسی روپے فی تولہ دستیاب تھا۔
دیگر سرکاری اداروں کی طرح ریڈیو پاکستان کی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ اس زمانے میں پشاور، لاہور اور کراچی میں ریڈیو اسٹیشن قائم تھے اور ان تینوں سٹیشنز کی نشریات میں جہاں معلوماتی پروگرام شامل ہوتے وہاں نئے نئے تفریحی پروگرام بھی تخلیق ہو رہے تھے۔
اس زمانے میں کم و بیش ہر سٹیشن سے نامور لکھاری وابستہ تھے اور ریڈیو کی ملازمت کو اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ عزت بھی اور معاشی سکون کا وسیلہ بھی! بعد میں ریڈیو پاکستان کو پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کا نام دیا گیا۔
ریڈیو نشریات تعلیم تفریح اور معلومات کا واحد ذریعہ تھا۔ آہستہ آہستہ زیڈیو کے پروگراموں کے معیار پر اثر پڑنا شروع ہوا جس کی بنیادی وجہ ریڈیو کے مسائل پر حکومت کی عدم توجہی تھی۔
ملک میں ریڈیو سٹیشنوں کا جال بچھا دیا گیا مگر ان کے پروگرام غیرمعیاری ہوتے گئے کیونکہ سرکار نے ریڈیو کو فنڈ فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا۔ اس کی ایک وجہ ہماری دانست میں یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کو افسر شاہی کے سپرد کر دیا گیا۔
ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہمیشہ سے ریڈیو ہی کا کوئی تجربہ کار پیشہ ور (professional) فرد ہوتا مگر اب کسی بھی بیوروکریٹ کو کسٹمز، ڈاکخانے اور مواصلات جیسے محکموں سے اٹھا کر ریڈیو کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جو ریڈیو کی پیشہ ورانہ ضرورتوں سے بے خبر ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ریڈیوسٹیشنز مزارات میں تبدیل ہو گئے۔
ریڈیو ملازمین کی تنخواہوں میں کھنڈت پڑنا شروع ہو گئی اور وہ پنشنرز جنہوں نے ریڈیو کی ترقی و ترویج میں حصہ لیا تھا ان کی پنشن دو دو ماہ تک روکی جانے لگی۔ ایک واقف حال کے مطابق گزشتہ سال جون کے بعد یہ ادارہ شدید مالی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ ملازمین کو تو لشٹم پشٹم تنخواہوں کی ادائیگی کر دی جاتی ہے مگر پنشنر باقاعدہ پنشن سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کو اس بڑھاپے میں شدید اذیتوں کا سامنا ہے۔
ہمارے بہت سے خود دار دوست جو قرض لینا بھی ہتک عزت سمجھتے ہیں، ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں؛ ان کی بیٹیوں کی شادیاں رک گئی ہیں اور ان کے لیے جسم جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
ریڈیو پر اس پیمبری وقت پڑنے کی وجہ کیا ہے؟
ریڈیو ہی کے ایک پنشن یافتہ دوست کے مطابق متعلقہ وزارت کا حکم ہے کہ کماؤ تو کھاؤ یعنی ملازمین ریڈیو چلانے کے لیے اشتہارات ڈھونڈیں اور اپنی مدد آپ کی بنیاد پر کام کریں، پنشن بھی ملے گی اور تنخواہ بھی! بالکل اسی طرح جیسے ایک زمانے میں ہمارے ایک ہمسایہ ملک کے قیدیوں کو بازار میں بھیک مانگنے کے لیے ہتھکڑی بدست گھمایا جاتا تھا۔
ریڈیو کے مالیاتی ماہرین کی بدانتظامی اور ان کی ناتجربہ کاری بھی موجودہ بحران کی وجہ بیان کی جاتی ہے، انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ریڈیو کی کیا ضروریات ہیں اور ان کو کس طرح منظم کیا جاتا ہے۔
اس وقت ریڈیو کے چار ہزار خاندان پنشن سے محروم ہیں۔ یہ تصور بھی حد درجہ اذیت ناک ہے کہ یہ افراد جن میں اعلی مناصب سے پنشن حاصل کرنے والے ملازمین کے علاوہ کلاس فور ملازمین اور دفتری عملہ بھی شامل ہے، وہ کتنی اذیت سے زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔
ریڈیو جو ہمیشہ نظریاتی سرحدات کی نشاندہی میں پیش پیش رہا اس کے ملازمین کو کیوں بھیک مانگنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ یہ ساری قوم کی توہین ہے۔
سرکار کی جانب سے بار بار اعلان کیا جاتا ہے کہ ملک کو کسی دیوالیہ پن کا سامنا نہیں ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک اشتہاری مجرم جو چار سال تک ملک سے باہر رہا اس کی ملک میں جائیداد حکومت نے اپنے قبضے میں لے رکھی تھی، اچانک اعلان ہوا کہ وہ واپس آ رہے ہیں، آ گئے۔ ان کی قرق شدہ جائیداد واگزار کر دی گئی، ان کو خزانہ جیسی بڑی وزارت سونپ دی گئی اور ان کو 77 کروڑ ان کی چار سال کی تنخواہ کی مد میں ادا کر دیئے گئے۔
وزیراعظم صاحب بڑے وفود کے ساتھ غیرملکی دوروں سے باز نہیں آتے۔ اس وقت ملک میں آٹے، بجلی اور گیس کا شدید بحران ہے مگر چاروں صوبوں کے اسمبلی اراکین کو باقاعدہ مراعات اور تنخواہیں مل رہی ہیں یہاں تک کہ قومی اسمبلی کے وہ اراکین جو استعفیٰ دے چکے ہیں ان کو بھی تنخواہوں کے حصول میں کسی مشکل کا سامنا نہیں۔ اور اسمبلی کے اراکین ہر سال اپنی تنخواہ میں 500 فیصد اضافہ بھی منظور کر دیتے ہیں مگر سرکاری ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے اور ریڈیو پاکستان کے پنشنرز باقاعدہ پنشن کے حصول سے محروم ہیں۔ ان کی تباہ حالی پر رحم کیجئے۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں