پرائیویٹ لیبر: رجسٹریشن نہ سوشل سیکورٹی، حکومتی ادارے ناکام
وجیہہ اسلم
چار بہنوں کا اکلوتا بھائی افضل بشیر ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی سے تعلق رکھتا ہے بہنوں کی آنکھوں کو تارا روزگار کی تلاش میں لاہور میں نوکری کی تلاش میں آیا اور آج لاہور کی معروف ترین لبرٹی مارکیٹ میں جیولری کی دکان میں نوکری کر رہا ہے۔ اس کے مطابق وہ اب تک 7 بار نوکری بدل چکا ہے، ”مالکان کا جب دل کرتا ہے نوکری سے نکال دیتے ہیں، کہ ہمارا کاروبار اچھا نہیں چل رہا تمہیں تنخواہ نہیں دے سکتے۔”
افضل بشیر نے مزید بتایا کہ 3 بار تو دکان کے مالکان نے اس لئے نوکری سے نکال دیا کہ اپنے آبائی علاقہ میں جاؤ گے تو تنخواہ نہیں ملے گی، چھٹی کے پیسے تنخواہ میں سے کاٹے جائیں گے۔
ملک میں لیبر کو رجسٹرڈ کرنے کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہے تو وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کیا اعداد و شمار درست ہیں؟ یہ اعداد و شمار کس سسٹم کے تحت اکٹھے کئے جاتے ہیں؟
محکمہ فنانس ڈیپارنمنٹ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 21-2020 میں مجموعی طور پر 71.76 ملین لیبر فورس میں سے 67.25 ملین ملازمت پیشہ افرد اجرت کما رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اعداد و شمار حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور گورنمنٹ سیکٹر سے لیبر سروے کے ذریعے جمع کئے گئے ہوں گے کیونکہ حقیقی لیبرز، فیکٹریز، بھٹہ، دوکانوں، پٹرول پمپس اور ہوٹلز میں کام کرنے والے افراد کی رجسٹریشن اور سوشل سیکورٹی نمبر تو ہوتا ہی نہیں۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری چودھری محمد یسین نے اس حوالے سے بتایا کہ قانون کے مطابق لیبر کی رجسٹریشن ہونی چاہیے تاکہ مالکان قانون کے دائرہ میں رہیں اور اپنی ورک فورس جو ان کا کاروبار بڑھانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ کسی قسم کا معاشی ظلم نہ کر سکیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب سے صوبوں کو اختیارات منتقل ہوئے ہیں تب سے لیبر ڈیپارنمنٹ میں کام نہ ہونے کے برابر ہو رہا ہے، لیبر سیکرٹری کو لیبر کے حقوق کے لئے چیف کمشنر کے پاس اپنے تمام مسائل لے کر جانے پڑ رہے ہیں۔
پرائویٹ لیبر کی مشکلات اصل میں ہیں کیا اس بات میں کس حد تک سچائی ہے کہ دوکانوں پر کام کرنے والے کیوں نوکری جانے کے ڈر میں مبتلا رہتے ہیں، لاہور کے اچھرا بازا کی ہر دکان میں پرائیویٹ لیبر پنجاب کے مختلف شہروں سے روزگار کی خاطر اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ بازار کی 20 بڑی دکانوں کا سروے خود ایک ٹیم بنا کر کیا جس کا میں خود بھی حصہ تھی، یہاں پر لیبر کا تعلق کس علاقے سے ہے، عرصہ ملازمت، تنخواہ اور سوشل سیکورٹی سے متعلق سوالات پوچھے گئے؛ بازار کی بڑی دکانوں پر مالکان کے اپنے رشتہ دار بطور لیبر کام کر رہے تھے جبکہ دوسرے شہروں سے آنے والے لیبر کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
جوتوں کی دکان پر ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے شبیر جواد نے بتایا کہ یہاں کے دکاندار ہم پر یقین نہیں کرتے اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹے شہروں سے وابستگی ہے، ”مجھے یہاں ہر نوکری اس شرط پر ملی ہے کہ میں 3 ماہ بعد اپنے آبائی شہر جا سکتا ہوں جبکہ ایک ماہ کی تنخواہ بھی بطور ضمانت رکھی ہوئی ہے۔”
سوشل سیکورٹی کے بارے میں انہیں علم ہی کچھ نہیں کیونکہ ایک ٹائم کا کھانا میسر کرنا ہی مالکان کی طرف سے غنیمت ہے۔
مارکیٹس میں لیبر یونینز نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کی بڑی وجہ لیبر ڈپارنمنٹ کی آگاہی مہم نہ چلانا ہے۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو سرمایہ دار تاجر یونین کے بناء مارکیٹس میں کاروبار ہی نہیں کرتے۔
سعد محمد انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن یوتھ بورڈ کے ممبر (ITUC) نے پرائیویٹ لیبر کے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2012 کے مطابق تمام دکاندار، ریسٹورنٹ مالکان اور پٹرول پمپس مالکان قانون کے مطابق اپنے پاس کام کرنے والے ہر ورکر کو معاہدہ (contract) کے تحت نوکری پر رکھے گا جس میں حکومت پاکستان سالانہ بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت 25 اور سوشل سیکورٹی بھی دینے کا پابند ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر کسی دکان پر 10 افراد نوکری کر رہے ہیں تو وہ قانون کے مطابق اپنی یونین بنا سکتے ہیں اور اپنے مسائل کو لیبر کورٹ میں بھی لے جانے کے اہل ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر آپ لیبر رجسٹریشن کے بارے میں 100 لوگوں کا سروے بھی کریں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں 90 فیصد لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہو گا۔
ادارہ شماریات کےاعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل افرادی قوت تقریباً 37.15 ملین افراد پر مشتمل ہے جس میں سے 47 فیصد زراعت کے شعبے میں، 10.50 فیصد مینوفیکچرنگ اور کان کنی کے شعبے میں اور باقی 42.50 فیصد مختلف دیگر پیشوں سے وابستہ ہیں۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ویب سائٹ پر دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 21 فیصد خواتین لیبر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی ہیں جو کہ ماضی کے مقابلے میں کم ہے، 2015ء میں لیبر خواتین کا تناسب 24 فیصد جو کہ تین گنا زیادہ تھا۔ گزشتہ دو سال میں کرونا وائرس کی وجہ سے ملازم پیشہ افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ ترقی کا پہیہ جام ہونے کی وجہ سے نئے روزگار کی تلاش روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے جس کی زد میں خواتین کا روزگار زیادہ آیا ہے۔
آئین میں مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے متعدد دفعات شامل ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 11 ہر قسم کی غلامی، جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کی ممانعت کرتا ہے۔ آرٹیکل 17 ایسوسی ایشن کی آزادی اور یونین بنانے کے حق کو استعمال کرنے کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 18 اپنے شہریوں کو کسی بھی قانونی پیشے یا دیگر کسی پیشے میں داخل ہونے اور کسی بھی قانونی تجارت یا کاروبار کو انجام دینے کے حق کو کالعدم قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل 25 قانون کے سامنے مساوات کا حق اور صرف جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کا تعین کرتا ہے۔
آرٹیکل 37 (ای) کام کے منصفانہ اور انسانی حالات کو محفوظ بنانے کا اہتمام کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بچوں اور عورتوں کو ان کی عمر یا جنس کے مطابق غیرمناسب پیشوں میں ملازمت نہیں دی جاتی ہے۔ آئین کے تحت لیبر کو ایک ‘ہم آہنگ موضوع’ سمجھا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں، دونوں کی ذمہ داری ہے۔
ڈپٹی سیکرٹری ڈویلپمنٹ راؤ زاہد نے بتایا کہ پرائیویٹ لیبر کی رجسٹریشن میں ادارہ سوشل سیکورٹی کلیدی کردار ادا کرتا ہے، حکومت کی جانب سے سالانہ پرائیویٹ لیبر اور بیرون ملک پاکستانی لیبر کے اعداد و شمار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ادارہ شماریات ہر پانچ سال بعد لیبر فورس سروے کرواتا ہے، سالانہ رپورٹ میں پرائیویٹ لیبر کے اعداد و شمار ایک فارمولے کے تحت شائع کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پرائیویٹ لیبر کو رجسٹرڈ کرنے میں سنجیدہ ہے مگر یہاں ایک اور مسئلہ تھرڈ پارٹی ایچ آر سسٹم ہے، پرائیویٹ کمپنیوں شاپنگ مالز، صنعتوں، کمرشل پلازہ کو اپنی کمپنیوں کی لیبر دینا شروع کر دی ہے، کمپنیاں ہی اس لیبر کی سوشل سیکورٹی اور نوکری کی ذمہ دار ہوتی ہے، حکومت پنجاب نے لیبر کی رجسٹریشن کے لئے "جاب سینٹر” https://jobcenter.punjab.gov.pk ویب سائٹ اور ایپلیکشن کا آغاز کیا ہے، اس جدید سسٹم کے تحت کوئی بھی نوکری پیشہ شخص خود کو رجسٹرڈ کروا سکتا ہے، پنجاب حکومت اس کو سوشل سیکورٹی بھی مہیا کرے گی، جدید سسٹم کے بارے میں عام آدمی کو کچھ نہیں پتہ!
اسی سلسلے میں جب انارکلی باراز میں گارمنٹس کی دکان میں کام کرنے والے شعیب صدیقی سے بات کی تو اس نے کہا میری تعلیم گریجوایشن ہے جبکہ موبائل کو استعمال کرنا بھی جانتا ہوں، حکومت پنجاب کی اس ایپلیکشن کے بارے میں علم تو دور کی بات مجھے تو سوشل سیکورٹی کے ادارے کے بارے میں بھی نہیں پتہ جو ہماری جان کی محافظ ہے۔
ملک میں پرائیویٹ لیبر کا استحصال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت سنجیدگی سے قوانین پر تاجر اور بزنس مین کو عملدرآمد نہیں کروائے گی۔ پرائیویٹ لیبر کا بھی بڑی کمپنیوں کے امپلوئیز کی نوکری سے پہلے کسی معاہدے پر دستخط ہونے چاہئیں جس میں حکومت کی طرف سے کم از کم ماہانہ اجرت اور قانونی طور پر سالانہ چھٹیوں کی تفصیل بھی شامل ہو۔
پرائیویٹ لیبر طبقہ کو کم از کم شرح اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ بچوں سے جبری مشقت کروانے والے قانون شکن تاجروں، دکانداروں اور ہوٹلز مالکان کو حکومت قانونی دائرہ میں لے کر آئے۔
صنعتی اور تجارتی روزگار (اسٹینڈنگ آرڈرز) آرڈیننس 1968 میں نافذ کیا گیا تھا، اس آرڈیننس کا مقصد تاجر، ملازم اور ملازمت کے معاہدے کے مابین تعلقات بہتر طریقے سے حل کرنا ہے۔ اس آرڈیننس کا اطلاق ملک بھر کے تمام صنعتی اور تجارتی اداروں پر ہوتا ہے جہاں 20 یا اس سے زیادہ کارکن کام کرتے ہوں، یہ آرڈیننس ان کے روزگار کے تحفظ کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔
اگر اسی کے دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالیں تو دیگر اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں، گھریلو ملازمین، زرعی مزدوروں یا ٹھیکیداروں کے ذریعہ کام کرنے والے پرائیویٹ لیبرز کے معاہدے عام طور پر غیرتحریری اور زبانی طے ہوتے ہیں۔