پاکستان کے اہل قلم کو گزشتہ دور کی نشانی ڈاکٹر یوسف خشک سے نجات دلائیں!
ڈاکٹر ہمایوں ہما
اکادمی ادبیات پاکستان ایک ایسا قومی ادارہ ہے جس کا کام پاکستان بھر میں موجود اہل علم و دانش کی فلاح و بہبود، ان کی مطبوعات کی اشاعت اور اہل قلم کی مالی اعانت ہے، ان میں ایوارڈز کی تقسیم کے منصفانہ فیصلے کرنا ہے اور ہر سال سالانہ کانفرنس کا انعقاد کرانا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ اہل علم و دانش کی شرکت کو ممکن بنانا ہے۔ اور اکادمی کے فرائض میں ماہانہ خبرنامہ، سہ ماہی ادبیات، ششماہی انگریزی مجلہ کا معیاری اور بروقت اجراء کرنا اور ہر موضوع پر عمدہ کتابوں کی ترسیل و اشاعت بھی شامل ہے۔
اگر ہم بہ نظر غائر اکادمی کے قیام سے لے کر اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیں ہم دیکھتے ہیں کہ اکادمی میں ڈاکٹر شفیق الرحمن، سید ضمیر جعفری، پریشان خٹک، غلام ربانی آگرو، احمد فراز، نذیر ناجی، فخرزمان اور افتخار عارف جیسے بڑے نامور ادیب و دانشور بحیثیت چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدوں پر متمکن ہوئے۔ ان کی علمی و ادبی مساعی سے اکادمی نے روز افزوں ترقی کی۔ اس ادارے میں ہر سال اہل قلم کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ ملک بھر کے اہل قلم ایک دوسرے سے مل کر علمی ادبی و لسانی ہم آہنگی پیدا کرتے تھے جس سے پاکستانی معاشرے میں توازن و یکجہتی کو فروغ ملتا تھا۔
جبکہ گزشتہ دور حکومت میں اکادمی میں کراچی کی یونیورسٹی سے اٹھا کر ایک ایسا رنگیلا چیئرمین لگا دیا گیا جو چارج لینے سے پہلے دو ماہ تک اپنے گریڈ اکیس کو بائیس میں بدلنے کی جدوجہد میں مگن رہا اور جب تک گریڈ بائیس کی منظوری نہیں ملی اس نے چارج نہیں لیا۔ اس رنگیلے چیئرمین کا نام ہے ڈاکٹر یوسف خشک جس نے آتے ہی سب سے پہلے نئے بال لگوائے، بعد ازاں ڈی ایچ اے میں اپنے لئے بنگلے کی بنیاد ڈال دی۔ دو سال پہلے کورونا وبا کے دنوں میں اکادمی کی تمام سہولتیں بنگلہ بنانے میں جھونک ڈالیں۔ اس کیلئے گاڑی، ڈرائیور، موٹرسائیکل، چوکیدار، نائب قاصد اور خانسامہ سب نے ڈیوٹی دینا شروع کر دی۔ علاوہ ازیں مالی وسائل کا انتظام اکادمی میں بیٹھے اندھوں میں کانے راجہ ملک مہر علی اور قائم مقام اکاؤنٹس آفیسر چوہدری غفران احمد نے مہیا کرنا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر خشک کے آنے سے پہلے اور اس کی صدر نشینی کے دوران مختلف شعبوں سے درجنوں افسران و سٹاف ممبران ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بیشتر شعبہ جات خالی پڑے ہیں اور اکادمی کے اہم مقاصد عرصہ دراز سے تعطل کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر خشک نے نہ ورثہ ڈویژن سے ملازمین طلب کئے اور نہ ہی نئی بھرتیوں کیلئے کوئی اشتہار شائع کروایا۔ ایک دو بار اشتہار شائع ہوا مگر اس سلسلے میں کوئی مثبت اقدام نہیں لیا گیا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی گاڑی چل پڑتی۔
اس نااہل و نالائق ڈاکٹر خشک کو کوئی کام آتا ہوتا تو وہ ادارے کے اغراض و مقاصد، اردو اور پاکستانی زبانوں کے ادب کے فروغ کیلئے کچھ کرتا۔ نہ ہی اس کی ٹیم کے دو اہم عہدوں پر قابض افراد نے کسی مثبت تجویز پر کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کسی نئے آدمی کو دفتر میں گھسنے ہی نہیں دیا مبادا ان کی کرپشن پکڑی نہ جائے۔
سرکاری رولز کی خلاف ورزی کی ایک چھوٹی سی مثال کو لے لیجئے۔ دفتر کا ریکارڈ گواہ ہے کہ افسر انتظامیہ ملک مہر علی اور اسسٹنٹ محمد اصغر دونوں سالہا سال سے غیرشادی شدہ اکٹھے رہائش پذیر ہیں۔ اب ان دونوں نے اپنے الگ الگ گھر بنا لئے ہیں۔ وہ حسب ضابطہ بیچلر کے طور پر ہاؤس رینٹ لینے کے حق دار ہیں مگر دفتری ریکارڈ گواہ ہے۔ ملک مہر علی شادی شدہ کے طور پر ہاؤس رینٹ وصول کر رہا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ملی بھگت سے انہوں نے ایک علمی و ادبی ادارے میں وہ اندھیرنگری مچا رکھی ہے کہ الحفیظ و الاماں!
دوسرا نمونہ اکاؤنٹس کے شعبہ میں چوہدری غفران احمد ہے جس کی تعلیمی قابلیت میٹرک یا ایف اے ھے مگر گریڈ سترہ کی پوسٹ پر راج کر رہا ہے جو انگریزی کی دو سطریں تک نہیں لکھ سکتا۔ وہ ملازمت کے دوران کروڑوں کی جائیداد کا مالک بن چکا ہے۔ اس کا ایک بیٹا آسٹریلیا میں زیرتعلیم ہے، اس کی لاکھوں کی فیس وہ یہاں سے بھیجتا ہے۔
اسی طرح اہل قلم سے زیادتی اور ان کی کرپشن کی ایک بڑی مثال حقدار ادیبوں اور دانشوروں اور ان کے لواحقین کو دیئے جانے والے وظائف کا شعبہ ہے جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والا میر نواز سولنگی مزے کر رہا ہے۔
جب سے ڈاکٹر خشک آیا ہے اس کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ اس وقت ملک بھر سے تقریباً ایک ہزار اہل قلم کو وظائف دیئے جا رہے ہیں مگر ان میں تقریباً ڈیڑھ سو اعزازیہ یافتگان ایسے ہیں جو سرے سے ادیب و شاعر ہیں ہی نہیں بلکہ چیئرمین اور دیگر مذکورہ بالا افسران کے متعارف کنندہ ہماشما یار دوست یا عزیز رشتے دار ہیں جنہیں ہر تین ماہ بعد تیرہ ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے یکمشت انتالیس ہزار کا چیک بھیجا جاتا ہے۔ ان میں کئی ایک پراپرٹی ڈیلر اور اپنے علاقوں میں کاروبار کرنے والے اچھے بھلے مالدار لوگ ہیں۔
دوسری جانب اگر کوئی حقدار اہل قلم مالی اعانت یا اعزازیہ کی درخواست دے تو اسے غیرضروری دفتری کارروائیوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان پر قابض چوروں کا یہ ٹولہ ایک دوسرے کی کرپشن سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوٹ مار میں مصروف ہے۔ اس دوران ڈاکٹر خشک کا بنگلہ زیر تکمیل تھا۔ انہوں نے اپنے زیر سایہ گریڈ بیس کی خالی پوسٹ پر اپنی بیوی کو بطور ڈائریکٹر جنرل تقرر کی کوشش بھی کی جسے ورثہ ڈویژن کے افسران نے ناکام بنا دیا ورنہ ڈاکٹر خشک نے یہ انوکھا کارنامہ سرانجام دینے کی بھی سرتوڑ کوشش کی تھی۔
ڈاکٹر یوسف خشک اسم بامسمہ ہیں، جیسے ہی اکادمی میں قدم رنجہ فرمائے اکادمی میں رواں خیروبرکت کے سوتے ہی خشک ہوگئے۔ اکادمی ملازمین کی پینشن اے جی پی آر منتقل ہونے سے قبل اکادمی کے ون لائن بجٹ میں شامل ہوا کرتی تھی اور ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن بھی دی جاتی تھی۔ ڈاکٹر خشک نے تیسرے چوتھے مہینے ہی یہ اعلان کر کے پینشن بند کر دی کہ فنانس ڈویژن پینشن کے فنڈز نہیں دے رہا۔ پینشن رکنے سے ریٹائرڈ ملازمین کے 65 خاندانوں نے بہت مشکل وقت گزارا۔ ملازمین اپنا کیس وفاقی محتسب اعلیٰ کے پاس لے کر گئے تب کہیں ڈیڑھ سال بعد ان کی پیشن بالآخر اے جی پی آر منتقل ہوئی اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن ڈاکٹر خشک کے تسلط سے آزاد ہو گئی اور ملازمین نے سکھ کا سانس لیا۔
اکادمی کے تحت ہر سال ممتاز ادیبوں اور دانشوروں کو مختلف کیٹیگریز میں کیش ایوارڈز بھی دیئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خشک نے اس اہم فریضہ کی ادائیگی میں بھی اپنے ذاتی تعلقات کو ملحوظ رکھا اور ایسے اہل قلم کو ایوارڈز دلوائے جو ڈاکٹر خشک کے کاسہ لیس تو تھے مگر اعلی پائے کے ادیب و دانشور نہیں تھے۔ اس کی بھونڈی مثال گزشتہ سال سب سے بڑے کمال فن ایوارڈ کے حوالے سے دیکھنے میں آئی۔
گزشتہ بیس اکیس برسوں میں پہلی بار ایک ہی ایوارڈ کو ملک کے دو بڑے ادیبوں مستنصر حسین تارڑ اور سرائیکی ادیب و دانشور ڈاکٹر اشو لعل فقیر کے مابین آدھا آدھا تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اکادمی کے اس اعلان پر دونوں ادیبوں نے بہت برا مانا اور ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا جس سے ایک قومی ادارے کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگا اور بہت جگ ہنسائی ہوئی۔
ہمیں اپنے ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اکادمی کے ملازمین کی اے جی پی آر سے پینشن ہونے سے قبل سی پی فنڈ اور جی پی فنڈ کاٹا جاتا تھا۔ اس کیلئے باضابطہ بنک اکاؤنٹ کے ساتھ ساتھ ایک خفیہ بنک اکاؤنٹ بھی موجود ہے جس میں جمع شدہ رقم اور اس پر ملنے والا منافع نہ صرف ان تین چار افسروں کی عیاشی پر خرچ ہوتا ہے بلکہ چیئرمین کو بھی مل بانٹ کر حصہ دیا جاتا ہے۔
ان حالات میں جبکہ پاکستان سخت مالی مشکلات کا شکار ہے مگر یہ کالی بھیڑیں دونوں ہاتھوں سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے قیمتی وسائل لوٹنے میں مصروف ہیں۔
اسی طرح پاکستان بھر کے ادیبوں اور دانشوروں کی فلاح و بہبود کیلئے رائٹرز ہاؤس قائم کیا گیا ہے جس میں اہل قلم کو رعایتی نرخوں پر قیام و طعام کی سہولت دی جاتی ہے۔ اکادمی کا یہ گیسٹ ہاؤس مشہور شفاء انٹرنیشنل ہسپتال کے بالکل سامنے ہے۔ اس لئے ہفتوں بلکہ مہینوں گیسٹ ہاؤس میں شفاء ہسپتال کے مریضوں کے لواحقین رہائش پذیر ملتے ہیں مگر ضروری پڑنے پر دوسرے شہروں سے آئے کسی مہمان شاعر و ادیب کو کبھی کمرہ خالی نہیں ملتا۔ سالہا سال سے رائٹرز ہاؤس کے کیش لین دین کے حسابات کا آڈٹ نہیں کرایا گیا۔
ان انتہائی مالی بے قاعدگیوں کے تناظر میں ہم وزیر اعظم پاکستان اور ورثہ ڈویژن کے وفاقی وزیر سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک خصوصی آڈٹ کے ذریعے اکادمی کے حسابات کی سختی سے جانچ پڑتال کروائی جائے اور کرپشن میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دے کر ان سے لاکھوں کروڑوں روپے واپس نکالے جائیں۔ بعد ازاں محکمانہ کارروائی کے ذریعے انہیں عہدوں سے بھی برطرف کیا جائے۔ چیئرمین ڈاکٹر خشک کے اثاثوں کی بھی چھان بین کی جائے کہ وہ جب آیا تھا تو اس کے اثاثے کیا تھے اور اب تین سالوں میں کیا ہیں۔ نیز گزشتہ تین سالوں میں بحیثیت چیئرمین اکادمی اس کی کارکردگی کیا ہے؟
پاکستان کے اہل علم و دانش اس کی کار گزاریوں سے واقف اور سخت نالاں ہیں۔ آپ سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے دوبارہ توسیع نہ دی جائے بلکہ ڈاکٹر خشک اکادمی سے سیدھا جیل بھیجا جائے تاکہ آئندہ آنے والوں کیلئے سامان عبرت ہو۔۔۔!
پس نوشت: اب اکادمی میں نه تو کوئی ادبی تقریب ہوتی ہے اور نه کوئی دوسرا قابل ذکر ادبی کام یہاں تک کہ ایک عرصہ گزرگیا پاکستانی ادب کے معمار کے نام سے کتابوں کی اشاعت کا سلسله ہی ختم ہو چکا ہے اور ملک الشعراء سمندر خان سمندر جیسے عظیم پشتو لکهاری کو معماران ادب کی فهرست میں ہی شامل نہیں کیا گیا۔
خدارا! ادبیات پاکستان کے حال پر رحم فرمائیے۔