دیراپر: ”گھر کیلئے لکڑی چاہیے لیکن فارسٹ والے اجازت نہیں دیتے”
ناصرزادہ
”ایسا ہے کہ سردیاں ہیں اور ہم ایک پرایے کمرے میں رہ رہے ہیں، گرمیاں ہوتیں تو پھر بھی ٹینٹ میں ہم گزارہ کر لیتے لیکن موسم سرما ہے، سردی ہے اس میں گزارہ بھی نہیں ہوتا، بچے ہیں ان کو سردی لگتی ہے، خود بھی ایک بیمار عورت ہوں۔”
یہ کہنا ہے اپر دیر کے علاقے عشیرئی درہ کی رہائشی بیوہ خاتون، طاہرہ بی بی کا جن کا گھر گزشتہ سال آنے والے سیلاب میں بہہ گیا تھا اور جس کے بعد وہ ایک پرایے کمرے میں زندگی کے شب و روز بسر کر رہی ہیں۔
طاہرہ بی بی کے مطابق حکومت کی جانب سے انہیں امداد دی گئی ہے اور وہ اپنے لئے گھر بنا رہی ہیں لیکن گھر کے لئے درکار لکڑی ان کے پاس ہے نا ہی جنگل میں ان کا کوئی حصہ ہے۔
”گھر کی چھت، کھڑکی اور دروازوں کے لئے جب لکڑی لانا چاہتی ہوں تو فارسٹ والے اس کی اجازت نہیں دیتے، زمین جتنی بھی تھی ساری سیلاب بہا کر لے گیا، اب یونہی بیٹھے ہوئے ہیں، اب زمین بھی خریدیں گے اور اپنے لئے کمرہ بھی بنائیں گے، بیٹا میرا چھوٹا ہے، خود بھی بیوہ ہوں، ہماری لکڑی بھی نہیں ہے اور ہم چونکہ مٹی کا کمرہ بنائیں گے تو اس کے لئے لکڑی بھی چاہیے، دروازے چاہئیں، لیکن ہمارے پاس دروازے ہیں نا ہی لکڑی اور اگر لکڑی لانا چاہیں تو حکومتی ہمیں تنگ کرتی ہے کہ اس طرح آپ لکڑی نہیں لائیں گے، بس کیا کریں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔” طاہرہ بی بی نے ٹی این این کو بتایا۔
عبدالصمد خان کے گھر کو بھی حالیہ سیلاب بہا کر لے گیا تھا اور وہ بھی اپنے لئے گھر تعمیر کر رہے ہیں لیکن طاہرہ بی بی کی طرح انہیں بھی لکڑی کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ان کے گھر میں جو لکڑی استعمال ہوئی تھی وہ تو سیلاب بہا کر لے گیا اور اب وہ جب جنگل سے لکڑی لاتے ہیں تو فارسٹ والے درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دیتے اور اگر وہ بازار سے خرید کر لاتے ہیں تو بھی پولیس، لیویز اور فارسٹ والے انہیں تنگ کرتے ہیں، ”گزشتہ سیلاب میں ہمارا جو گھر ڈیمیج ہوا تھا، خراب ہو گیا تھا تو اس کی وجہ سے اب ہمارے پاس لکڑی نہیں ہے، دوسرے فارسٹ والے ہمیں اجازت بھی نہیں دیتے، اور اگر ادھر ہمارے پاس اپنی تیار لکڑی ہوتی ہے تو پھر بھی آ جاتے ہیں، چھاپہ مارتے ہیں اور وہ لکڑی بھی ضبط کر کے چلے جاتے ہیں، وہ یہ تیار لکڑی بھی نہیں چھوڑتے۔”
اس حوالے سے محکمہ جنگلات اپر دیر کے سربراہ شاہ ظاہر نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ مکانات/عمارات کی تعمیر نو کیلئے لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ دیر اپر میں بیشتر مکانات لکڑی سے بنے ہوتے ہیں، اس کیلئے ایک طریقہ کار اپنایا گیا ہے جو ذرہ طویل تو ہے لیکن جنگلات کے تحفظ اور سمگلنگ کی روک تھام کیلئے ضروری بھی ہے، ذاتی ضرورت مندوں کو ایک لوکل پرمٹ جاری کیا جاتا ہے، ”یہ طریقہ کار اس لئے وضع کیا گیا ہے تاکہ اس کی ہر طرح کی ویریفیکیشن ہو سکے، اس کا پراسیس یہ ہے کہ اس سلسلے میں رینجر آفیسر کو درخواست دی جاتی ہے، پھر تحصیلدار اور اس طرح ناظم سے بھی اس کی تصدیق کرائی جاتی ہے کہ واقعی یہ ایک ضرورتمند ہے، اس میں تھوڑے مسائل ضرور ہیں لیکن اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے جنگلات تباہ ہو جائیں گے، اور یہ سمگلرز آ کر ان جنگلات کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے۔”
قدرتی آفات کیلئے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق دیر اپر میں سیلاب 389 گھر سیلاب میں بہہ گئے تھے جن میں سے اکثر لکڑی سے بنے یا پھر کچے مکانات تھے۔
دیر اپر کے متاثرینِ سیلاب نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گھر کی تعمیر لکڑی کے حصول کے طریقہ کار میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔