عبداللہ کو گردہ نہیں ملے گا مگر کیا مجرموں کو سزا ملے گی؟
ناصرزادہ
14 سالہ عبداللہ کا تعلق اپر دیر کے علاقے جبر، عشیری درہ سے ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ لاہور میں مقیم ہے۔ لاہور کے ایک سروس سٹیشن میں یومیہ کے حساب سے محنت مزدوری کرنے والے عبداللہ کو اس کا ایک دوست فیصل جاب کا جھانسہ دے کر راولپنڈی لے گیا۔
عبداللہ کے مطابق پنڈی میں ملزم فیصل کے دیگر دو دوستوں، امجد اور عامر، نے مل کر بتایا کہ نوکری کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ ضروری ہے یہ کرنا ہو گا، لیبارٹری ٹیسٹ کے بہانے عبداللہ کو بے ہوش کر کے اس کا ایک گردہ نکال لیا گیا۔ آٹھ دن بعد جب عبداللہ واپس لاہور پہنچا تو پہلے پہل تو اس نے اپنے والدین کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیا تاہم جب والدین گھر لے کر گئے اور دیکھا تو اس کے پیٹ میں ٹانکے لگے تھے اور پیٹ زخمی تھا۔
عبداللہ کے والد ایاز خان اور ماموں نصر اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے عبداللہ کی گمشدگی کی رپورٹ بھی لاہور کے مناواں پولیس سٹیشن میں درج کرائی تھی اور آٹھ دن بعد بچہ ان کو ملا تو سیدھا پولیس سٹیشن گئے جہاں پر دیکھا تو بچے کے پیٹ میں ٹانکے لگے تھے۔
مناواں پولیس کے مطابق دو بندے شک کی بناء پر پہلے اور دو ملزمان کو بعد میں گرفتار کیا گیا اور کیس کی مزید تفتیش جاری ہے۔
پنجاب حکومت نے مزید علاج کے لئے عبداللہ کو گنگارام ہسپتال منتقل کر دیا جہاں سرکاری خرچ پر بچے کا علاج جاری ہے۔
دوسری جانب پی کے گیارہ دیربالا سے منتخب ایم پی اے ثناء اللہ متاثرہ بچے کو انصاف دلانے کے لیے لاہور پہنچ گئے اور وہاں پر متاثرہ خاندان کے ساتھ مل کر اس گروہ کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق ورثا کی اجازت کے بغیر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کے اعضاء نہیں نکال سکتا، اعضاء کی خرید و فروخت بھی قانونی جرم ہے، پنجاب حکومت کو چاہئے کہ واقعہ میں لوث گینگ کے خلاف سخت ایکشن لے۔