لائف سٹائل

سیلاب زدگان: بچوں کو خارش کی بیماری لاحق

کائنات علی

نوشہرہ کے علاقے شہید آباد میں واقع سیلاب متاثرین کیمپ میں قیام پذیر زاہدہ بی بی اپنے معذور بچوں کی خدمت میں مصروف ہیں کیونکہ کیمپ ہٰذا میں متعدد بچوں کو خارش کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں 40 سالہ زاہدہ بی بی کا کہنا تھا کہ سیلاب ان کا تین مرلے کا مکان بہا لے گیا ہے اور وہ کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی ہیں جہاں ان کے تمام بچے خارش کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں، کسی کی آنکھیں، کس کا پورا وجود تو کسی کے پاؤں متاثر ہو گئے ہیں، ”سیلاب ہمارے سروں پر گزرا ہے، دو بچے ہمارے معذور ہیں اور بیٹیاں ہیں میری چھوٹی چھوٹی لیکن سبھی کو خارش لگی ہوئی ہے، کسی کی آنکھوں میں تو کسی کے پیروں میں خارش ہے، رضائی ہے نہ بستر اور نہ ہی چارپائی اور اگر کچھ آتا بھی ہے تو میرے لڑکے معذور ہیں انہیں کوئی کچھ نہیں دیتا، نہ ہی وہ رش میں خود کو بچا سکتے ہیں، سارا محلہ جانتا ہے کہ یہ لڑکے معذور ہیں، باپ کا سایہ نہیں ہے، یتیم ہیں، یہاں میری تین ساڑھے تین مرلہ کی اراضی ہے بچے چھوٹے ہیں ڈرتی ہوں کوئی قابض نہ ہو جائے اس پر، بہت غریبی ہے میری، بے بس ہوں۔”

زاہدہ بی بی کا کہنا تھا کہ متاثرہ بچوں کے علاج معالجے کے لئے انہیں ادویات تو دی گئی ہیں تاہم چارپائی اور بستروں کی عدم دستیابی کے باعث وہ بچوں کو ایک دوسرے سے دور نہیں سلا سکتیں جس کی وجہ سے تمام بچوں کو ایک دوسرے سے یہ بیماری لاحق ہو گئی ہے، ”پہلے دوائیاں دے دیتے کہ یہ مچھروں کی دوا ہے لگائیں، یہ گولیاں ہیں ان کو کھلائیں لیکن جب چارپائی اور بسترے نہیں ہوں گے اور دو دو ایک ساتھ پڑے رہیں گے تو ایک سے دوسرے کو دوسرے سے تیسرے کو لگ جاتی ہے، سارے اسی طرح بیمار ہوئے ہیں، تین تین ایک ساتھ رضائیوں میں سوتے ہیں ہمارا کچھ بھی نہیں، غربت ہے اور بیوہ ہوں۔”

کیمپ میں زاہدہ بی بی کی ہمسایہ سعدیہ بی بی کے گھر میں بھی بچے خارش کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، بقول ان کے وہ بچے ڈاکٹر کو دکھا چکی ہیں تاہم سیلاب کے بعد یکے بعد دیگرے لاحق ہونے والی بیماریوں نے بچوں کو بے حال کر کے رکھ دیا ہے جبکہ وہ خود بھی بچوں کو لے کر پریشان ہیں، ”انہیں خارش بھی ہے، دانے بھی نکل آئے ہیں، بہت سے ڈاکٹروں کو دکھایا، ادھر یہ آ جاتے ہیں اعلان کر لیتے ہیں، ہم انہیں لے جاتے ہیں دوائیاں دے دیتے ہیں، تازہ دنوں میں یہ بہت آتے تھے، ہم لے کر گئے ہیں، سیلاب کی وجہ سے ہمارے بچوں کو بخار بھی ہے، درد بھی، کھانسی بھی ہے اور بچے بےحال ہو گئے ہیں، ہم خود بھی بڑے ہیں لیکن بدحال ہو گئے ہیں۔”

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور فلاحی ادارے ان کے مکانات اگر دوبارہ تعمیر کروا کر دے دیں تو امید ہے کہ بچوں کی صحت بحال ہو جائے گی۔

بی ایچ یو نوشہرہ کے ڈاکٹر یاسر عالم کے مطابق بچوں کی بیماریوں کی بنیادی وجہ سیلاب کا پانی ہے کیونکہ بعض علاقوں میں تادیر سیلاب کا پانی کھڑا تھا جس کی وجہ سے بچے خارش، پیٹ کی خرابی اور بخار کا شکار ہوئے ہیں، ”یہ جو بچے ہیں یہ آلودہ پانی می گھومنے پھرنے سے بیمار ہوئے، اس میں سیلولائٹس بھی تھا، اس میں سکیبیز بھی تھا اور دیگر انفیکشنز بھی تھے، اور زیادہ تر جلد کی بیماریاں تھیں، زیادہ تر بچوں کو ڈائریا کی شکایت تھی، بنیادی طور پر ڈائریا اس وجہ سے تھا کہ جو گندا پانی تھا وہ گھروں کے سینیٹری کے ساتھ آلودہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ان کو پیٹ کا انفیکشن ہوا تھا، زیادہ تر بچے جو ہمارے پاس آتے تھے ان کو دست، قے اور بخار کی شکایت ہوتی تھی۔”

انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ لوگ غریب بہت ہیں اور سیلاب کے بعد ان کی اتنی بساط نہیں کہ اپنے بچوں کا علاج کروا سکیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ سردیوں میں ہنگامی بنیادوں پر ان کے علاج کا بندوبست کروائے۔

دوسری جانب غیرسرکاری تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کا کہنا تھا کہ انہوں نے نوشہرہ میں متاثرین سیلاب کیلئے میڈیکل کیمپ منعقد کروائے تھے جہاں سینکڑوں لوگوں کا علاج کیا گیا تھا۔

الخدمت فاؤنڈیشن نوشہرہ کے صدر ناصر السلام کے مطابق ان کی تنظیم نے نا صرف سیلاب زدہ مریضوں معائنہ کروایا تھا بلکہ انہیں ضرورت کے مطابق ادویات بھی فراہم کی تھیں، ”جب ہم نے دیکھا تو ہم نے کوشش یہ کی کہ خود بھی (چیزیں) ارینج کیں اور ڈونرز کو بھی بلا کر لائے، الشفاء انٹرنیشنل، الٹرسٹ ہسپتال اسلام آباد جو ہے تو ان کے زریعے ہم نے فری آئی کلینک منعقد کروائے، فری میڈیکل کیمپ ہم نے لگوائے، اور ان میں ہم نے جنرل او پی ڈی بھی کروایا اور گیسٹرو سے متعلق شکایات کو بھی ایڈریس کیا، آنکھوں کے جو ڈاکٹر آئے تھے انہوں نے ایڈریس کئے، مفت علاج کروایا اور اس کے ساتھ ساتھ جو ادویات درکار تھیں وہ بھی ان کو دیں، اور پھر آنکھوں کے لئے اس وقت جو عینک درکار تھیں یا دیگر سامان وہ بھی ہم نے ان کو دیا، اور اس ہر کیمپ میں ہم 1450، 1450 لوگوں کا ہم نے معائنہ کرایا تھا، صرف نوشہرہ کیننٹ میں جو کیمپ لگایا تھا اس میں ہم نے 1480، 1485 لوگوں کا ڈیٹا تھا جن کا ہم نے علاج کرایا تھا اور انہیں ادویات فراہم کی تھیں۔”

دوسری جانب محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے مطابق رواں برس سیلاب کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ہسپتالوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے مریضوں کو علاج میں جبکہ خود انہیں (محکمہ کے اہلکاروں کو) مراکز صحت میں سہولیات دینے میں مشکلات درپیش ہیں۔

ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر نیک داد کے مطابق سیلاب کے بعد صوبہ بھر میں مجموعی طر پر پیٹ کے مسائل، جلدی امراض اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے، ”63 ہزار جلد کے مریض تھے، اسی طرح 18 ہزار کیسز ملیریا کے تھے، اور تقریباً ایک لاکھ 678 کیسز ایکیوٹ ڈائریا کے آئے تھے، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا محکمہ صحت کے لئے کہ ان کے لئے ہم میڈیسن کیسے برابر کریں تو ہم نے ایک تو اپنے بی ایچ یوز کو فعال کیا اور اس کے علاوہ فری میڈیکل کیمپ شروع کروائے، اسکے علاوہ جو ادارے تھے ہمارے پاس، این جی اوز تھیں، جو انٹرنیشنل این جی اوز تھیں خاص طور سے ڈبلیو ایچ او اور یونیسف، انہوں نے ہمارے ساتھ مدد کی، اور ہم نے ان علاقوں میں ایک ہزار سے زائد کیمپ لگوائے اور مجموعی طور پر ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو ان کیمپوں میں اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا ہسپتال میں چیک اپ کرایا۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button