پشاور: فن کی جنت سے فن کے قبرستان تک کا سفر
محمد فہیم
دلیب کمار، راج کپور، شاہ رخ خان، ونود کھنہ اور نہ جانے کون کون سے بالی ووڈ ستارے پشاور کی مٹی کی پیداوار ہیں۔ اگر پاکستانی فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو فہرست مزید طویل ہے؛ آصف خان، ارباز خان، جہانگیر خان، قوی خان، عجب گل، نجیب اللہ انجم، مرینہ خان، فردوس جمال، رشید ناز اور کئی ایسے اداکار جنہوں نے فن کی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔
محولہ بالا سطور میں محض یہ چند نام گنوائے گئے، جبکہ حقیقتاً اگر صرف نام لکھوانا شروع کئے تو ہو سکتا ہے کہ یہ تحریر مکمل ہو جائے لیکن نام پھر بھی ختم نہ ہوں۔ ان تمام ناموں کی کامیابی کی وجہ صرف اور صرف ان کی اپنی محنت اور لگن ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس فہرست پر فخر کرنے والے آج اس فہرست میں مزید نام درج کروانے کیلئے کوشش کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔
خیبر پختونخوا اور پختونوں کو سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پہنچایا؛ مالی، جانی، سماجی اور نفسایاتی اثرات ایک طرف سوویت یونین کیخلاف شروع ہونے والی جنگ نے اس فن اور ہنر کو بھی ایک گالی بنا دیا۔ 80 کی دہائی سے شروع ہونے والی یہ جنگ اتنی طویل ہو جائے گی، کوئی نہیں جانتا تھا، اور ہر دن گزرنے کے ساتھ اس خطے میں موسیقی، ادارکاری، لکھاری اور غرض فن و ادب سے وابستہ ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہو جائے گا، شائد کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
خیبر پختونخوا کی مٹی آج اس مشکل وقت میں بھی فن و ثقافت کے میدان میں ہیرے سامنے لا رہی ہے لیکن حکومتی سرپرستی کہاں ہے؟ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک بہترین فیصلہ کرتے ہوئے ثقافت کے امین کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تو تھا، جس میں صوبہ بھر سے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے 500 فن کاروں کو اعزازیہ دیا گیا گو کہ یہ اعزازیہ اونٹھ میں منہ میں زیرے کے برابر تھا تاہم کچھ نہ کچھ کیا جا رہا تھا، لیکن پھر اچانک سے اس میں من پسند لوگوں کو نوازنے کے الزامات سامنے آ گئے۔
پی ٹی آئی صوبے میں ساڑھے 9 سال سے حکومت کر رہی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ فن کے شعبہ میں نئے ٹیلنٹ کو ڈھونڈنے اور انہیں تیار کر کے دنیا کے سامنے لانے میں یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے؛ نہ ہی حکومتی سرپرستی اس خطے کی فلم انڈسٹری کو حاصل ہے اور نہ ہی ڈرامہ انڈسٹری کا زوال ختم ہو سکا ہے۔
حکومت خود کبھی بھی ان شعبہ جات میں براہ راست حصہ نہیں ڈالتی لیکن ماحول فراہم کرنا تو حکومت کی ہی ذمہ داری بنتی ہے ناں! آج صوبے کا واحد ثقافتی مرکز نشتر ہال خالی ہے، یہاں تقاریب ہوتی ہیں لیکن نہ جانے آخری بار سٹیج شو کب ہوا تھا؟
نشتر ہال کی طرز پر بنوں، کوہاٹ، ڈی آئی خان، مردان، سوات اور ایبٹ آباد میں ہالز کے قیام کا منصوبہ تو فائلوں میں دفن ہی ہو کر رہ گیا ہے، اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہاں کے نوجوان فن سے محبت نہیں کرتے۔ کیسے کریں گے محبت جب انہیں وہ سرگرمیاں ہی میسر نہیں ہیں۔
اس نشتر ہال میں سٹیج ڈرامے ہوتے تھے، طلبہ و طالبات کے تقریری مقابلے ہوتے تھے اور ان کی ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی تھیں لیکن آج یہ نشتر ہالز صرف بااثر افراد کی سرگرمیوں کیلئے رہ گیا ہے جس سے آمدن حاصل کی جا رہی ہے۔
حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں رہے کہ وہ اس مرکز کو اپنی پرانی حالت میں ہی بحال کر دے؛ اداکاروں، موسیقاروں اور لکھاریوں کی حالت کو تو پوچھیں بھی مت!
جب کوئی اداکار یا موسیقار بیمار ہو جاتا ہے تو میڈیا پر خبر چلنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ثقافت کا بھی ایک وزیر ہے جو سیاسی بیان بازی کا کام ہی کرتا ہے؛ فن کاروں کو روزگار فراہم کرنا تو دور کی بات صوبے میں جو محکمہ ثقافت تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا، کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی بنائی گئی لیکن اس میں کلچر ہی نہیں ہے تمام توجہ صرف اور صرف سیاحت پر ہے۔ ملازمین اپنے حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں اور حکومت کو اپنا معاملہ درست کرنا ہے لیکن جس مقصد کیلئے یہ محکمہ تھا وہ اب شاید کہیں دفن ہو گیا ہے۔
جیسے ہم دلیپ کمار، راج کپور اور شاہ رخ خان کے پشاور سے رشتہ ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن اچھا ہے کہ ہندوستان چلے گئے، اگر پشاور میں رہتے تو زرسانگہ، ہدایت اللہ، افتخار قیصر، صلاح الدین، گل بالی، سید منظر اور مختیار علی نئیر سے مختلف نہ ہوتے۔
اگر یقین نہیں آتا تو جب کبھی بھی وقت ملے تو دلیپ کمار اور راج کپور کے گھر کا رخ بھی کر لیں، یقین آ جائے گا۔ کہ جن سے محبت کے ہم دعویدار ہیں ان کے گھروں کا ہم نے کیا حال کر رکھا ہے؛ اور جس کو ہم خود سے زیادہ چاہتے ہیں اس فن میں ہم نے مزید نام پیدا کرنا ہی چھوڑ دیئے اور اپنے ہیروز کو کس طرح رسوا کر دیا ہے۔