تعلیمکالم

نقل کی روک تھام: ایک نیا امتحانی نسخہ

ڈاکٹر ہمایون ہما

جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے کم و بیش پچھتر سال ہو گئے۔ افسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کا ہر شعبہ تجربات کی زد میں ہے۔ کیا سیاست کیا تجارت کیا انتظامیہ سب تختہ مشق بنائے جاتے ہیں اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

تعلیم کا شعبہ سب مانتے ہیں ملک کی ترقی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن جب بھی کوئی حکومت آئی اس نے سب سے پہلے تعلیم کو ہی نشانہ بنایا۔ اس وقت ملک میں بے شمار تعلیمی ادارے بیک وقت قوم کے بچوں کے ذہنوں کو لتاڑ رہے ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں، پرائیویٹ اسکول کالج اور جامعات تک اپنے کام میں مصروف ہیں اور ان سب سے علیحدہ اشرافیہ طبقے کے بچوں کے لیے علیحدہ سے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔

اگر سرکاری ادارے اساتذہ سے محروم ہیں اور وہاں بلیک بورڈ تک موجود نہیں تو پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنے خودساختہ نصاب سے بچوں کو مستفید کر رہے ہیں۔ اور بڑے شہروں میں کچھ ایسے تعلیمی ادارے جن کی ابتدائی کلاس کے بچوں سے 30 ہزار ماہانہ فیس وصول کی جا رہی ہے ان کا اپنا نصاب اور نظام تعلیم ہے۔

آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ متذکرہ تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے طلباء جب عملی میدان میں داخل ہوں گے تو ان کی ملک کی ترقی و ترویج کے منصوبوں میں کتنا تضاد ہو گا۔ اس کی حالیہ مثال رواں سال میں موسم سرما کی چھٹیوں کی منسوخی اور اس کے اچانک اعلان سے لگایا جا سکتا ہے۔ افسر شاہی کو اس بات کا علم ہی نہیں میدانی علاقوں کے سرکاری تعلیمی اداروں کو بجلی اور گیس کی نایابی کی صورت میں کن مسائل کا سامنا ہو گا اور ان اداروں کے طلباء کس قدر جسمانی اذیت میں مبتلا ہوں گے کیونکہ وہ خود بھی ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوتے ہیں جہاں کے طلباء کو نہ گرمی کا علم ہوتا ہے اور نہ سردی اور اب ان کی اولاد بھی ان مسائل سے بے خبر ہے۔

خیر یہ تو ایک تمہید تھی دراصل میں ایک نئے مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں جو اس وقت جماعت نہم کے امتحان میں نقل روکنے کی خاطر تجربے کے طور پر سامنے آیا ہے اور حکومت اساتذہ اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے کسی صلاح مشورے کے بغیر بالا بالا The Student Learning Outcome Base کے نام سے ایک نئے تجربے کے لیے پر تول رہی ہے بلکہ شنید ہے کہ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

اس نئے نسخے میں نہم کے پرانے طریقے کار کو یکسر ختم کر کے S L O کے نام سے امتحان لیا جائے گا۔ پرانے طریقہ امتحان میں طلبہ سے کسی بھی باب کے اختتام پر درج مشقوں سے ان کے ذہنی استعداد کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور پھر امتحانی پرچے بھی ان مشقوں کی بنیاد پر تیار کیے جاتے تھے۔ اب طلباء کو سارا باب یا درسی سبق زبانی یاد کرنا پڑے گا کیوں کہ ان سے اس سبق پر مبنی سوال امتحانی پرچہ میں پوچھے جائیں گے۔

قرارداد پاکستان کے بنیادی نکات جو آپ کی کتاب کے متعلقہ سبق میں درج ہیں تفصیل سے لکھیے۔ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کی تشریح اپنے نصابی سبق کی روشنی میں کیجئے وغیرہ وغیرہ۔ اس نئے طریقہ امتحان کو متعارف کرانے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرح امیدوار مخصوص سوالوں کے جواب نقل کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور انہیں نصابی کتابیں پڑھنا پڑیں گی۔

ہم نہیں سمجھتے کہ یہ نیا امتحانی طریقہ کار کہاں تک نقل روکنے میں کامیاب ہو گا لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس نئے امتحانی نسخے کے مطابق خلاصے اور ٹیسٹ پیپر کی تیاری شروع ہو چکی ہو گی۔

ایک دوسری قباحت یہ سامنے آئے گی کہ ممتحنین کو ان کے پرچے جانچتے وقت سارا نصاب ازبر کرنا پڑے گا۔ یا پھر وہ نصابی کتاب سامنے رکھ کر اس سے استفادہ کریں گے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے جانچنے کا طریقہ غیرمعیاری ہو گا اور اس کا نقصان امیدواروں کو پہنچے گا۔

اگر سرکار اس نئے امتحانی طریقہ کو آزمانے کا مصمم ارادہ کر ہی چکی ہے تو اسے اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے ورکشاپوں کا انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس نئے امتحانی طریقے سے کماحقہ واقف ہو سکیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا جماعت نہم کے طلباء کا زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی اس دوڑ میں بری طرح ناکام ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

جی ہاں! ہمارے ملک میں الل ٹپو تجربات کا جو نتیجہ نکلتا ہے ہم سمجھتے ہیں یہ نیا امتحانی تجربہ بھی ایسے ہی بھیانک نتیجے کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور ہم لوٹ پیچھے کی طرف گنگناتے ہوئے پرانے طریقہ کار کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے۔

Dr. Muhammad Humayun Huma
ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پی ٹی وی کے سنہری دور کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ ہیں، وہ ایک شاعر، ادیب، کالم نگار اور سب سے بڑھ کر ایک استاد ہیں۔ قلم و کتاب سے ان کا رشتہ کافی پرانا ہے اور آج کل دل کا غبار و بھڑاس نکالنے کیلئے ان سطور کا سہارا لیتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button