اور کتنا وقت چاہئے؟
محمد فہیم
بچپن میں سکول جانے سے ہر بچے کی جان نکلتی تھی ایسے میں ہفتہ وار چھٹی سب سے بڑی نعمت ہوتی تھی جبکہ گرمیوں کی تین مہینے کی چھٹیاں تو جیسے زندگی کی کل کائنات تھیں لیکن جیسے ہی سکول دوبارہ سے کھلتے تو صرف ایک ہفتے کی خوشی ہی ہوتی اس کے بعد سکول میں کسی کا دل نہیں لگتا تھا؛ کبھی چوری چھپے اور کبھی بہانے بنا کر چھٹیاں کی جاتیں۔
گرمیوں کی چھٹیاں وقت سے پہلے کرانے کیلئے صبح کی اسمبلی میں بچوں کا بے ہوش ہونا ایک معمول تھا لیکن سردیوں میں ایسا ممکن نہ تھا۔ خدا بھلا کرے انگریز سرکار کا جنہوں نے اپنے دور میں کرسمس اور نیو ایئر کی چھٹیوں کو شدید سردی کے ساتھ منسلک کر کے مملکت خداداد کے بچوں کو سردیوں میں بھی چھٹیاں کرنے کا موقع فراہم کر دیا لیکن یہ خوشیاں صرف ہماری نسل کے بچوں تک کیلئے ہی تھیں اب تو جیسے بچوں سے چھٹیوں کی خوشیاں روٹھ گئی ہیں، ہر وقت پڑھائی اور نمبر کی دوڑ نے ان کی زندگی سے وہ معصومیت ہی چھین لی جو ان کا حق ہے۔
ویسے اس وقت معاملہ سردیوں کی چھٹیوں کا ہے، سرکار نے ہمیشہ سے عوام کا بھلا ہی چاہا ہے ایسے میں سرکار کے کسی بھی فیصلے پر میلی نگاہ رکھنا زیادتی ہو گی۔
ابھی حال ہی کا فیصلہ دیکھ لیں؛ دو سال قبل کورونا آیا تھا اور اس کی وجہ سے سکول و کالجز بند تھے، سرکار کو چار روز قبل یاد آیا کہ اس کورونا کی وجہ سے بچوں کا قیمتی وقت برباد ہو گیا لہٰذا اس برس جو بڑا دن کی چھٹیاں ہیں یعنی سردی کی چھٹیاں وہ نہیں ہوں گی اور بچے سکول آئیں گے۔
یہ چھٹیاں عمومی طور پر ایک ہفتے سے زیادہ سے زیادہ دس روز تک ہوتی ہیں جن میں کرسمس اور نیو ایئر دونوں ہی گزر جاتے ہیں۔ اس فیصلے سے بچوں کا وقت قیمتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا بس پھر کیا تھا سرکاری سکول کے اساتذہ جو پہلے ہی انتہائی تندہی کے ساتھ پڑھاتے ہیں اور ایک کلاس بھی ضائع نہیں کرتے انہوں نے بھی خصوصی ٹاسک سوچ لئے، بچوں کو اس ایک ہفتے میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کیلئے سرکاری سکولوں میں پرنسپلز کی سربراہی میں خصوصی اجلاس بھی ہوئے ہوں گے۔ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی پلاننگ بھی ہو گی کہ کیسے اس ایک ہفتے میں کورونا میں ہونے والے بچوں کا حرج کم کیا جا سکے لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس ظالم موسم نے اچانک سے انگڑائی لے لی اور جیسے ہی سرکاری نے یہ فیصلہ کیا اگلے ہی دن خیبر پختونخوا کے میدانی علاقے شدید دھند کی لپیٹ میں آ گئے۔
جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا نہ تو دھند تھی اور ہی سردی لیکن محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے فیصلے نے جیسے دھند اور سردی کو دعوت دے دی ہو۔ شدید سردی اور دھند کے بعد سرکار نے پھر سے سر جوڑ لئے اور پھر اپنے فیصلے پر ہلکا سا ٹرن لیا اور فیصلہ کیا گیا کہ میدانی علاقوں کے ڈپٹی کمشنرز یہ فیصلہ کر لیں کہ آیا سکول کھلے ہونے چاہئیں کہ نہیں۔
ابھی ڈپٹی کمشنرز کو یہ ٹاسک سونپا ہی گیا تھا اور ڈپٹی کمشنرز نے سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ صوبہ بھر سے حد نگاہ صفر ہونے کی خبریں آ گئیں۔ ہفتے کی صبح اساتذہ نے بچوں کی اسمبلی کی تصاویر شیئر کر دیں جن میں بچے مشکل سے ایک ساتھ کھڑے ہوتے نظر آ رہے تھے۔
خیر سرکار نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس فیصلے پر ثابت قدم رہے لیکن یہ ثابت قدمی زیادہ دیر جاری نہ رہ سکی اور ہفتہ کی شام ڈھلتے ہی صوبائی وزیر ابتدائی و ثانوی تعلیم شہرام ترکئی نے ایک ہفتے کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا۔
وزیر کے اعلان کے ساتھ ہی محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم نے بھی ایسا ہی کیا اور وزیر صاحب کا حکم بجا لایا لیکن سرکار تو اعلامیہ پر چلتی ہے، ٹوئٹ کوئی سرکاری ریکارڈ تھوڑی ہے کہ کر دیا اور سکول بند۔۔۔ شام ڈھلے افسران کو گھروں سے اٹھایا گیا اور ایک نوٹیفیکیشن جیسے تیسے کر کے نکالا گیا اور اب ایک ہفتے کیلئے چھٹیوں کا اعلان کر دیا گیا تو بچے اب نیو ایئر تک چھٹیوں کے مزے لے سکتے ہیں۔
معاملہ صرف یہاں تک کا نہیں، اعلیٰ تعلیم نے بھی چھٹیاں کینسل کی ہوئی ہیں اور ان چھٹیوں کے باوجود اسلامیہ کالج اور باچا خان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے چھٹی دے دی۔
اب یہاں بھی ہر کسی کی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بن گئی ہے۔ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ سرکار جو فیصلہ بھی کرتی ہے صرف اور صرف عوام کیلئے کرتی ہے لیکن سرکار کا فیصلہ ہے کون سا؟ ہر دوسرے دن نیا فیصلہ اور پچھلے فیصلے پر مٹی پاﺅ والا حساب بنا دیا گیا ہے۔
بچوں کی چھٹی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں لیکن یہ ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ تعلیم جیسے انتہائی اہم شعبہ میں بھی وہ حکومت غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہے جو ساڑھے 9 سال سے حکمران ہے اور انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ کب کیا کرنا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان ساڑھے 9 سالوں میں ایسا نظام مرتب کر لیا گیا ہوتا جو خودکار ہوتا اور صوبے کے ہر فرد کو اس کا علم ہوتا جس سے نہ تو کوئی غیریقنی کی صورتحال پیدا ہوتی اور نہ ہی کوئی یو ٹرن لینا پڑتا۔