ریحام خان کی شادی: عمر کا فرق؟ دولہا دلہن کی مرضی!
ارم رحمٰن
سوشل میڈیا پر ایک تازہ اور گرما گرم خبر پھیل گئی ہے؛ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی دوسری سابقہ بیوی ریحام خان نے ایک ماڈل اور اینکر سے، جو ان سے عمر میں تیرہ برس چھوٹے ہیں، عقد سوئم کر لیا اور خوبصورت مقدس رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں۔
اب یہ نہیں پتہ کہ باقی دو شادیوں کی طرح تیسری بار بھی ان کا ”آئیڈیل” مل گیا یا پھر سابقہ شوہر عمران خان کے مدمقابل ہونے کے لیے تیسری شادی کر لی جسے پنجابی زبان میں پیار سے کہتے ہیں "تیجا ویاہ کھڑکا لیا یا پھڑکا لیا۔۔” لوگ دیوانہ وار دنیا مافیہا سے بے خبر اس خبر پر کمنٹس کرنے میں لگے ہیں۔
اسی طرح کچھ دن پہلے خبر پھیلی کہ کالج کے بس ڈرائیور نے ایسے گانے لگائے کہ کالج کی لڑکی جس کا گھر آخری سٹاپ پر تھا، وہ ان گانوں کے انتخاب سے متاثر ہو کر اس ڈرائیور کی محبت میں مبتلا ہو گئی اور پھر شادی کر لی۔
اور کچھ دن بعد پتہ لگا کہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب کی تدریسی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر ان کی شاگردہ نے ان سے شادی کر لی، واقعی ان میں بہت سی پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیں ہوں گی جس کا ادراک وہ ذہین طالبہ ہی کر سکی باقی طلبہ و طالبات شاید گراؤنڈ میں گھاس کاٹنے جاتے تھے۔
چلیے یہ تو تھے ان کے ذاتی معاملات مگر پوری عوام کو کیا ہو جاتا ہے؟
"شادی کا بخار۔۔۔!”
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ شادی ہے، جن کی نہیں ہوئی وہ کلپ رہے ہیں، جن کی ہو گئی وہ تڑپ رہے ہیں۔ جن کی شادی ان کی پسند کی نہیں ہوئی وہ فریادی، اور جن کی محبت کی ہوئی وہ سرعام کہتے ہیں لو میرج بربادی ہے، پاکستان کا ایک ہی مسئلہ ہے جو "شادی” ہے!
ابھی تک یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ شادی تو کارخیر ہے اس پر بھی نکتہ چینی، بے جا تنقید، آخر کیوں؟ کوئی زنا بدکاری کرے تو اس پر لوگوں کا ردعمل سمجھ میں آتا ہے، ایک جائز نیک کام میں بھی رخنے ڈالنا، لغو گوئی کرنا اور نامناسب الفاظ میں کمنٹ کرنا، اگرمرد کی شادی کم عمر لڑکی سے ہو جائے تو سارا زمانہ اس مرد کی قسمت پر ناز کرتا ہے کہ واہ۔۔! اس عمر میں کتنی کمسن جوان بیوی مل گئی اور سب دوست یار اپنی ٹپکتی رال چھپانے کے چکر میں اور بہت کچھ بول جاتے ہیں۔
اسی طرح اگر بڑی عمر کی عورت کی شادی اپنے سے کم عمر شخص سے ہو جاتی ہے یا وہ دونوں باہمی رضامندی سے کر لیتے ہیں تو لوگ اپنی ذہنی غلاظت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں اور اس خاتون کو برے انداز سے پیش کیا جاتا ہے۔
ریحام خان جو خود ایک مشہور و معروف خاتون ہیں اور سب ان کی خوبصورت شخصیت سے متاثر ہیں، اگر ان کی شادی ان سے تیرہ سال چھوٹے مرد سے ہو گئی یا انہوں نے کر لی تو وہ مرد بھی تو 35 سال کا ہے، عاقل بالغ، سمجھدار، وہ ریحام سے عمر میں کم ہے لیکن ویسے تو بچہ یا نابالغ نہیں۔
کیا 35 سال کے مرد میں اپنی کوئی عقل، سمجھ بوجھ نہیں جو سارا سوشل میڈیا محترم بلال بیگ کو "منا کاکا” بنانے پر تلا ہے؟ اس نے ریحام خان سے شادی کچھ سوچ سمجھ کر کی ہو گی، ان خاتون کے ماضی اور حال سے سب واقف ہیں۔
دوسری بات یہ کہ یہ ان دونوں کا خالص ذاتی مسئلہ ہے، دونوں ہی ہر لحاظ سے متوازن ہیں اور سب سے بڑھ کر ہم مذہب! اور دونوں کا ماضی کیا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی کبھی بھی ہدایت اور نیکی کی توفیق پا سکتا ہے۔
لیکن افسوس اور حیرت کی بات کہ جب ایک بڑی عمر کے ڈرائیور نے کالج کی لڑکی سے شادی کی تب تو سب مطمئن تھے اور پروفیسر صاحب نے اپنی شاگردہ جو ان کی روحانی بیٹی تھی کیونکہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اس نے اگر بچی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر بیٹی کہا اور سمجھا ہوتا تو اس بچی یا لڑکی کی شادی کی سوچ پیدا ہی نہ ہوتی، لیکن وہاں بھی سب چپ ہیں کیونکہ ان دونوں صورتوں میں مرد ان لڑکیوں سے عمر میں کافی بڑے تھے اور شکل و صورت میں بھی واجبی لہذا ان کو معصوم کنواری جوان لڑکیاں مل گئیں تو معاشرہ خوش ہے لیکن ریحام خان اور بلال بیگ کی شادی ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ وہ خاتون اپنے شوہر سے بڑی ہیں۔
یہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ تھیں تب یہ ان سے بیس سال چھوٹی تھیں، تب سب خوش تھے لیکن اب جب یہ اپنے تیسرے شوہر سے بڑی ہیں تو سب کے پیٹ میں درد ہونے لگا۔ اور پھر اس پر طرہ یہ کہ بیٹی کی شادی کی عمر تھی، خود شادی کر لی ہے۔
اسی طرح پڑوسی ملک کے نامور کھلاڑی نواب منصور پٹودی کے مشہور اداکار بیٹے سیف علی نے ہندو اداکارہ کرینہ کپور سے شادی کی تو ان کی بھی تصویر ساتھ پوسٹ کی جا رہی ہے شاید وہاں بھی یہ ہی کہنا مقصود ہو کہ بیٹی کی شادی ہونی چاہیے تھی، حالانکہ سیف مسلمان ہیں اور کرینہ ہندو، یہ شادی اسلام کے بالکل خلاف ہے لیکن پھر بھی ہم اس ملک کے قانون کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس ضمن میں آخری بات کہ کوئی جب چاہے، جس سے چاہے شادی کرے؛ وہ پہلی ہو، دوسری، تیسری یا چوتھی، زنا اور بدکاری کی طرح بالکل بھی حرام نہیں۔
جب اللہ کے حکم کے مطابق نکاح کیا جائے تو اس پر کسی قسم کی تنقید کرنا یا قدغن لگانا خود ایک قابل مذمت عمل ہے لہذا سوشل میڈیا شادی کی خبروں کو چٹپٹا اور دلچسپ بنا کر پیش کرنا چھوڑ دے۔
جب پاکستانی لڑکے 24 اور 28 سال کی عمر میں 50 سال یا اس سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرتے ہیں تو سب کہتے ہیں باہر کی نیشنلٹی چاہیے۔ اور ایک جوان لڑکے نے تو 83 سالہ پولش خاتون سے شادی کر ڈالی جو درحقیقت واقعی مضحکہ خیز بات تھی، یہ بے جوڑ نہیں بے ہودہ تعلق محسوس ہوتا ہے، کیونکہ دادی نانی کی عمر کی خواتین سے بہت عجیب سا احترام کا احساس ہوتا ہے۔ اور ان سے جسمانی تعلق کی سوچ رکھنا بالکل غیرفطری اور غیرمتوازن محسوس ہوتا ہے لیکن بات وہی آتی ہے کہ اگر کسی نے نکاح کر لیا تو ہم میں سے کسی کو بھی اس عمل پر تنقید کا حق نہیں کیونکہ بہرحال کام جائز اور نیک ہے۔
عمروں کا فرق دولہا دلہن کی مرضی، ہم کون ہیں اعتراض کرنے والے! عوام کو کوئی اور کام نہیں ہر وقت ایسی پوسٹس پر تبصرے اور تجزیے کرتے رہنا جیسے ان کا واحد مقصد حیات ہر واہیات پوسٹ پر وقت اور دماغ کا ضائع کرنا ہی رہ گیا ہو۔
سوشل میڈیا نے اپنی پرکشش خبروں سے لوگوں کو اس قدر جکڑ لیا ہے کہ درست اور غلط کی پہچان ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کس بات کو اہمیت دینی ہے کس کو نہیں، سمجھ سے باہر ہو گیا ہے۔ دینی تعلیم سے بے بہرہ عوام، بھیڑ بکریوں کی طرح کسی ایک بھیڑ کے پیچھے چل پڑتی ہے جسے عرف عام میں "ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا کہتے ہیں۔” جن باتوں میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ان پر اپنی صلاحتیں اور طاقت ضائع کرنے کی کیا تک ہے؟
ملک میں اور بہت سے توجہ طلب معاملات اور مشکلات ہیں، ان پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے؛ معاشرے میں سماجی اور تہذیبی اصلاح کی ضرورت ہے، تعلیمی اور صحت کے درپیش مسائل بہت توجہ اور اہمیت کے حامل ہیں مگر ہم سب دوڑتے ہیں بے معنی، فضول پوسٹس اور موبائل گیمز کی طرف، جس کا انجام صرف تباہی اور گمراہی پر مبنی ہے۔
بچے جوان بوڑھے مرد عورتیں سب موبائل ہاتھوں میں لیے مگن بیٹھے ہیں؛ بچوں کو پڑھائی سے کوئی لگاؤ ہے نا جوانوں کو کسی ہنر میں مہارت، جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت بھی تباہ، کسی قسم کی جسمانی مشقت، ورزش اور کھیل کود سب ختم، موبائل گیم یا فحش بے ہودہ وڈیوز، خواتین بھی فیشن، میک اپ اور ملبوسات کے علاوہ کوئی دینی اور اخلاقی تعلیم دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔
بوڑھوں کے پاس کوئی بیٹھتا ہے نا ان کے ساری زندگی کے تجربات سے کوئی مستفید ہونا چاہتا ہے۔ اور اب اس صدی کے بوڑھے جو سوشل میڈیا کے دور میں بوڑھے ہو رہے ہیں وہ بھی زندگی کے آخری سالوں یا وقت کو بھرپور خوشگوار بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں؛ ٹانگوں میں چلنے کی سکت نہیں مگر ڈانس کے کلپس ان کے قدموں کو تھرکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ الغرض جوان بوڑھے بچے سب اس سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا ہیں۔
ہمارا معاشرہ اندر سے کھوکھلا اور ہر شخص اپنی ذات میں تنہا ہو چکا ہے۔ اور "سوشل” یعنی ملنسار، لوگوں میں گھلنے ملنے والا یہ لفظ اب فقط "سوشل میڈیا ” کے لیے استعمال ہوتا ہے۔