ڈاکٹر حنین: کالام کے متاثرینِ سیلاب جنہیں آج بھی یاد کرتے ہیں
رفیع اللہ خان
یہ خاتون ڈاکٹر حنین ہیں جنہوں نے رواں سال اگست میں آنے والے سیلاب کے دوران متاثرینِ سیلاب کو طبی امداد فراہم کی تاہم اس دوران وہ غیرمعمولی مشکلات کا شکار بھی ہوئیں۔
ڈاکٹر حنین کے مطابق جب انہیں پتہ چلا کہ کالام اور اردگرد علاقوں میں موجود صحت کے مراکز کو سیلاب نے تباہ کر دیا ہے، ان لوگوں کو دیگر علاقوں سے رابطہ بھی منقطع ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں خصوصاً مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگوں کی خدمت کریں گی۔
تاہم ڈاکٹر حنین کے لئے یہ فیصلہ اتنا آسان بھی نہیں تھا کیونکہ انہیں اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے اور چار سالہ بیٹی کی دیکھ بھال بھی کرنا تھی، ”میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ تم جاؤ گی اگر تم جانا چاہو لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ سوچ لو کیونکہ واپسی کے زیادہ امکانات نہیں اور نہ ہی یہ پتہ کہ ہم کب تک وہاں قیام کرتے ہیں اور پھر وہاں پر رہائش کے انتظام کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے تو بہت مشکل فیصلہ ہے لہذا خود ہی سوچ لو، لیکن مجھے تو جیسے ہی انہوں نے بتایا تو میں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ میں کسی نا کسی طرح سے متاثرین سیلاب کی مدد ضرور کروں گی، تو میں نے سیدھا کہا کہ میں تو جاؤں گی، خواہ جس طریقے سے بھی ہو لیکن میں جانا چاہتی ہوں، کسی ماں کیلئے ایسا فیصلہ تو بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر جائے گی اور پھر یہ بھی علم نہیں کہ وہ کب واپس آئے گی، یا واپس آئے گی بھی یا نہیں۔”
بہرکیف، انسانیت کی خدمت کا جذبہ ڈاکٹر حنین کو کالام پہنچا کر ہی رہا، کالام تک تو وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر پہنچیں تاہم دوردراز پہاڑی علاقوں میں آباد لوگوں تک پہنچنے کیلئے انہیں گھنٹوں پیدل سفر بھی کرنا پڑا، ”ہم خود بہت خوفزدہ رہتے تھے، پہلی شب جس گھر میں ہم قیام پذیر تھے تو اس گھر کے لوگوں کو سیلاب کا خطرہ اس وقت بھی درپیش تھا، تو اس گھر کے لوگ سبھی جاگ رہے تھے، خواتین دعائیں مانگ رہی تھیں جبکہ مرد اس سائیڈ پر چلے گئے تھے جہاں سے سیلاب کا خطرہ تھا تاکہ اگر سیلاب آ رہا ہو تو وہ ہمیں اطلاع دے کر یہاں سے نکلیں گے، تو وہ رات ہم نے بڑے خوف میں گزاری تھی کیونکہ اس وقت ہم خود بھی خطرے میں تھے اور ہمارا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا، روڈ تو نہیں تھی لیکن جو راستہ تھا وہ بڑا ٹف تھا، اس راستے کو ان لوگوں نے خود بھی ایکسپلور نہیں کیا تھا، نہ ہی اتروڑ کے لوگوں نے اور نہ گبرال کے لوگوں نے!”
ڈاکٹر حنین کے مطابق کالام میں پریگنینسی کے کیسز زیادہ تھے۔
ڈاکٹر حنین کے شوہر ڈاکٹر عدنان کے مطابق مستقبل میں ایسی آفات کے موقع پر نقصان سے بچنے کیلئے نوجوانوں کو ریسکیو ٹریننگ دینا ضروری ہے، ”دسویں اور بارہویں جماعت بعد لازمی تین ماہ کا ریسکیو تربیتی کورس کروانا چاہیے جس کے ساتھ جانی و مالی نقصان کو کافی حد تک کمی کو ممکن بنایا جا سکے گا۔
سوات کے متاثرین سیلاب آج بھی ڈاکٹر عدنان اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر حنین کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر حنین نے اپنا شیرخوار بچہ گھر چھوڑ کر ان لوگوں کی خدمت کی اور اس سلسلے میں کافی مشکلات جھیلیں، ”ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔”