افتتاح در افتتاح: دھوکہ آخر کس کو دیا جا رہا ہے؟
محمد فہیم
اسمبلیوں کی تحلیل تو رک گئی لیکن اس تحلیل کے اعلان نے بڑے بڑوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے عیاں کر دیا۔
جب سے عمران خان نے حقیقی آزادی لانگ مارچ شروع کر دیا اور اسمبلی ٹوٹنے کا اعلان ہوا اور وزیر اعلیٰ محمود خان نے صوبے کے دورے شروع کر دیئے ہر دورے میں وزیر اعلیٰ نے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا، وہ صوبہ جو اپنے ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں دے سکتا اس صوبے کا وزیر اعلیٰ ہر دورے میں 10 سے 15 ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کر دیتا اور اس اعتماد کے ساتھ اعلان کیا جاتا کہ جیسے صوبے کا خزانہ بھرا ہوا ہے اور اس خزانے کا منہ صوبے کی عوام کیلئے کھول دیا گیا تاہم لانگ مارچ ختم ہوا اور اسمبلیاں ٹوٹنے کا اعلان ہوا، جتنے منصوبے صرف اجلاسوں میں تھے سب کا اعلان کر دیا گیا، جتنے منصوبے ابھی مکمل ہونے میں کئی ماہ درکار ہیں ان کا فیتہ کاٹ دیا گیا اور جتنے منصوبے فنڈز کے منتظر ہیں ان کا بھی دوبارہ اعلان کر دیا گیا۔
اگر صرف پشاور کی بات کی جائے تو بدھ اور جمعرات کے روز وزیر اعلیٰ نے 4،4 منصوبوں کا فیتہ کاٹ کر تختی پر اپنا نام درج کرا دیا۔
بدھ کے روز وزیراعلیٰ نے پشاور یونیورسٹی میں نئے قائم کئے گئے انسٹی ٹیوٹ آف کریمنالوجی اینڈ فرانزک سائنسز کا افتتاح کیا جو 18 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے 1.22 ارب روپے کی تخمینہ لاگت کے پشاور اپ لفٹ پروگرام فیز ٹو کے تحت حیات آباد ٹریل کا باضابطہ سنگ بنیاد بھی رکھا، یہ منصوبہ 16 کروڑ 79 لاکھ روپے کی تخمینہ لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں پشاور یونیورسٹی میں سڑکوں، فٹ پاتھ، کارپارکنگ اور پبلک ٹوائلٹس کی تعمیر و بحالی کے منصوبے پر بھی کام کا اجراء کیا گیا۔ یہ منصوبہ 14 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔
اسی طرح ایک ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے ایگریکلچر یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ سنٹر کے قیام کے منصوبے کا باضابطہ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔
جمعرات کے روز جن 4 منصوبوں کا فیتہ کاٹا گیا ان میں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں قائم کئے جانے والے عالمی معیار کے کرکٹ اسٹیڈیم سمیت پشاور میں چار میگا ترقیاتی منصوبے بھی شامل ہیں جو مجموعی طور پر 3.62 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کئے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے دورے کے دوران نئے قائم کئے گئے پانچ ماڈیولر آپریشن تھیٹرز کا بھی افتتاح کیا جو 7 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل کئے گئے ہیں۔
اسی طرح وزیراعلیٰ نے خیبر کالج آف ڈینٹسٹری کے نئے قائم کئے گئے بلاک کا بھی باضابطہ افتتاح کیا۔ بعدازاں وزیراعلیٰ نے بینک آف خیبر کے نئے قائم کئے گئے ہیڈکوارٹر ٹاور کا بھی افتتاح کیا۔ یہ ٹاور 1.29 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔
اگر ان معلومات کا جائزہ لیا جائے تو کرکٹ سٹیڈیم 99 کروڑ 30 لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر ہو گا اور اس وقت گراﺅنڈ پر 63 کروڑ 30 لاکھ روپے لگ چکے ہیں یعنی مزید 36 کروڑ روپے خرچ ہوں گے اور یہ اب تک مکمل نہیں ہے لیکن وزیر اعلیٰ نے جلدبازی میں افتتاح کر دیا ہے۔
سوال صرف اتنا سا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کس کو دھوکا دے رہی ہے؟ کس کو دھوکا دیا جا رہا ہے؟ جو منصوبے شروع نہیں ہو سکتے اور ان کی اب تک فزیبلٹی بھی نہیں ہے صوبہ بھر میں اربوں کے ایسے منصوبوں کا اعلان کر کے وزیر اعلیٰ عوام کو بے خبر سمجھتے ہیں یا بے وقوف بنا رہے ہیں؟
دوسری جانب ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ ابھی تو اعلانات ہوئے ان پر کام شروع ہونے میں کافی وقت درکار ہے کوئی پکوڑے یا سموسے نہیں خریدے جا رہے جو فوری ادائیگی کر دی جائے۔
بات بیرسٹر سیف کی درست ہے کہ یہ منصوبے فزیبلٹی سٹڈی کے مرحلے سے گزریں گے اگر موزوں قرار دیئے گئے تو پی سی ٹو پھر پی سی ون اور متعلقہ فورم سے منظوری کا مرحلہ ہو گا اور اگر فنڈز ہوئے تو تمام مراحل کامیابی سے گزرنے میں تقریباً ڈیڑھ سے دو سال کا وقت درکار ہو گا اور دو سال بعد نہ جانے کون کدھر ہو گا لیکن سوال اب بھی وہی ہے کہ دھوکا کس کو دیا جا رہا ہے؟
ہر سیاسی حکومت یہ چاہتی ہے کہ عوام ان پر اعتماد کریں، انہیں ووٹ دیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وزیر اعلیٰ چار سال تک وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے باہر بھی نہیں نکلے، ان کیلئے کھلی کچہری بھی آن لائن منعقد کرائی گئی تاکہ محمود خان وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے اندر ہی بیٹھے رہیں اور باہر دھوپ نہ لگے انہیں اور اب جب دوبارہ عوام میں جانے کی باری آ گئی تو محمود خان بھی دوروں پر نکل آئے اور عوام کے دکھ درد بھی انہیں یاد آ گئے۔
عمران خان جب سے اقتدار سے اترے ہیں محمود خان کو ہیلی کاپٹر کے استعمال کے باعث عمران خان کو لینے اور لے جانے کیلئے وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے نکلنا پڑتا رہا ہے لیکن اگر محمود خان کے باقی دور کا جائزہ لیا جائے تو جتنے دورے محمود خان نے ایک ماہ کے دوران مختلف اضلاع کے کر لئے ہیں شاید ان کے پورے دور میں ان کے نصف بھی نہ ہوں تو پھر اچانک سے اتنی پھرتی؟ عوام میں گھل مل جانے کی کوشش؟ خود کو عوام کا حقیقی نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش؟
سوال صرف اتنا سا ہی ہے کہ آخر دھوکہ کس کو دیا جا رہا ہے؟