سوات میں تباہ کن سیلاب کا پانچواں ماہ، متاثرین تاحال مشکلات سے دوچار
شہزاد نوید
خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں واقع بحرین حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے، روڈ پر سفر کرنے والے ایک مقامی شہری منظور کمال کا کہنا ہے کہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو دو سال تک ان کی پریشانی ختم نہیں ہوتی۔
جنت نظیر وادی سوات میں حالیہ سیلاب کی تباہی کے بعد بحرین سے کالام تک شاہراہ جبکہ اس کے ساتھ دیگر مقامات تک جانے والی سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں جبکہ ان علاقوں کا زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو چکا تھا لیکن اب مقامی لوگوں نے سڑک کی تعمیر میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر کے بحرین سے کالام تک روڈ کو فور بائی فور گاڑیوں کے لیے عارضی طور پر کھول دیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ اور حکومت بحالی کی جانب رواں دواں ہے لیکن اب انتہاہی سست روی کا شکار ہے تو اس وجہ سے مقامی لوگ اپنی مدد کے تحت خود بھی اقدامات اٹھاتے ہیں، بحرین سے تعلق رکھنے والے طارق خان کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد منٹوں کا راستہ گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ کالام سے بحرین سڑک جا بجا سیلاب میں بہہ گئی ہے، ”ہمیں یہ ڈر بھی تھا کہ سڑک خستہ حالی کی وجہ سے گاڑی دریائے سوات میں گر نہ جائے۔”
بحرین سے کالام تک 34 کلومیٹر روڈ ہے لیکن یہ روڈ دریائے سوات کے کنارے پر واقع ہے، ایک طرف لوگ سے سیاح حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو دوسری طرف دریا اور روڈ کے درمیاں جگہ کم ہونے کے باعٹ خطرناگ بھی ہے۔
ضلعی انتظامیہ سوات سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 233 مکانات، 50 ہوٹل، 41 سکول، 24 پل اور 130 کلومیٹر تک سڑکیں پانی میں بہہ گئی ہیں جبکہ 24 اموات ہوئی ہیں۔
بالائی علاقوں تک جانے والی سڑکیں بہہ جانے سے ادویات اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن نجی اور فلاحی اداروں کی مسلسل کوشش سے لوگوں کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گئے جن میں گرم ملبوسات، خوراکی اشیاء، ٹینٹ، صاف پانی اور خواتین کی ضروریات کی چیزیں شامل ہیں۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ بحرین
اسسٹنٹ کمشنر بحرین اسحاق احمد خان نے بتایا کہ حالیہ سیلاب میں بحرین میں 600 گھر مکمل طور پر تباہ جبکہ 500 کو جزوی نقصان پہنچا تھا، اس کے ساتھ 52 ہوٹل، 30 رابطہ پل، 24 مقامات پر روڈ، 400 دکانیں اور 38 بجلی کے پول سمیت دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا تھا، ”یہاں پر کروڑوں کا نقصان ہوا ہے لیکن متاثرین کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔”
سوات میں حالیہ سیلاب سے 131 کلومیٹر کی سڑکیں تباہ ہو گئیں، مختلف علاقوں کا زمینتی رابطہ منقظع ہو گیا تھا جن میں بحرین، کالام، مانکیال، اشو، مٹلتان، مدین اور گبین جبہ شامل تھے۔
بحالی کا کام جاری ہے
ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں متاثرین کی مدد اور بحالی کے کاموں کے بعد ان کو معاوضے سمیت بحالی میں مدد کی جا رہی ہے، ”سیلاب آنے کے کچھ دن بعد ہم نے پہلے مرحلے میں 9 کلومیٹر روڈ بحال کی جبکہ اب بحرین روڈ کو بھی مکمل طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔”
جنید خان نے بتایا کہ کالام روڈ کی بحالی پر انتظامیہ، ایف ڈبلیو او، این ایچ اے اور انجینئرنگ کور مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں، اور بہت جلد روڈ کو پرانی حالت میں بحال کر دیا جائے گا۔
مختلف علاقوں کا رابطہ بحال کرنے کیلئے 20 چیئر لفٹ
ڈپٹی کمشنر سوات کے مطابق سیلاب کے دوران متاثرینِ کیلئے سات مقامات پر ریلیف کیمپ لگائیں گئے ہیں جہاں پر متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی تھی۔
کیمپ متاثرین کا موقف
سیلاب سے متاترہ علاقہ بحرین میں قائم ٹینٹ ویلج میں موجود کلثوم نامی خاتون نے بتایا کہ انتطامیہ کی کارگردگی صرف سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تک محدود ہے، ”اب تک اسسٹنٹ کمشنر بحرین نے یہاں کا دو مرتبہ دورہ کیا ہے، اس کے بعد کوئی پرسان حال نہیں لیکن شکر ہے کہ یہاں فلاحی تظمیں موجود ہیں، انہوں نے ہمارے مسائل کافی حد تک حل کیے ہیں اور مزید بھی حل کر رہے ہیں۔”
کلثوم نے بتایا کہ ٹنیٹ میں اب گزراہ مشکل ہے کیونکہ یہاں پر درجہ حرارت رات کو منفی چھ یا سات ڈگری ریکارڈ کیا جاتا ہے، ”اب حکومت سے دراخواست ہے کہ ہمیں دریائے سوات کے کنارے دوبارہ سے آبادی کرنے کی اجازت دے تاکہ ہماری مشکلات میں کمی آ سکے۔”
2022 کا سیلاب 2010 سے خطرناک تھا؟
حالیہ سیلاب میں دریائے سوات کا بہاؤ دو لاکھ 43 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جو 2010 کے سیلاب سے دگنا تھا۔
بحرین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہ خان نے بتایا کہ یہ سیلاب تو اپنی جگہ تھا لیکن ساتھ پانی کے ساتھ ایک بڑا پتھر بھی آیا جس نے ہوٹل کی عمارت کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا، ”اس کے بعد عمارت اوپر سے گری لیکن اب بھی انہیں امید ہے کہ ہوٹل کی عمارت کافی حد تک بچ گئی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ 2010 سیلاب سے زیادہ نقصان یوں ہوا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ سیلاب آنے والا ہے۔
سوات کے بالائی علاقوں مدین، بحرین اور کالام میں جہاں بلند سرسبز پہاڑ ہیں وہاں ان علاقوں میں صاف شفاف ٹھاٹھیں مارتا دریا بھی ہے جس کے کنارے بیٹھ کر لوگ پانی کی تیز لہروں کے مزے لیتے ہیں لیکن سیلاب نے وادی کی خوبصورتی کو گہنا دیا ہے اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس کی بحالی کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔
طبی ضروریات اور بحرین کے باسی
حالیہ سیلاب سے جہاں ایک طرف دیگر املاک کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف درجنوں طبی مراکز کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
سیلاب کی بعد مختلف علاقوں میں لوگوں کو مختلف بیماریوں نے گھیر لیا جس کے بعد نجی اور سرکاری اداروں نے اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے، ضلعی انتظامیہ سوات کے مطابق بحرین کے مختلف علاقوں میں 21 ہزار مریضوں کا چیک اپ کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
سیلاب میں ڈبلیو ایچ او کے اقدامات
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جہاں مختلف نجی اور سرکاری لوگوں نے مالی مدد کی، وہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے بھی بہت سنجیدگی سے لوگوں کے اہم مسائل پر کام کیا۔
ڈبلیو ایچ او سے حاصل کردہ عداد و شمار کے مطابق انہوں نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) کو چار فور بائی فور گاڑیاں مہیا کیں جن کے زریعے بالائی علاقوں میں محصور لوگوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے، گاڑیوں کے لیے ہر ماہ ضلعی انتظامیہ کو چار ہزار لیٹر تیل بھی مہیا کیا جاتا ہے جس سے بالائی علاقوں کے لوگ بروقت مستفید ہو رہے ہیں۔
ڈی ایچ او سلیم نے اس حوالے سے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او سے ملنے والی گاڑیوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہم دو ہزار تک مریضوں کو طبی سہولتیں رہے ہیں اس سے قبل ان بالائی علاقوں تک جانا ممکن ہی نہیں ناممکن تھا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ٹینٹ، خوراک اور دیگر چیزیں بھی مہیا کر رہے ہیں، جس سے بالائی علاقوں میں محصور لوگوں کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہوں گی۔
ملاکنڈ ڈویژن میں جانی اور مالی نقصانات
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں 66 اموات ہوئیں اور 47 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
حالیہ سیلاب سے اب تک ملاکنڈ ڈویژن میں 2336 رہائشی مکانات، 438 سکول، 35 صحت مراکز، 517 روڈز، 141 پل، 183 ایریگیشن چینلز متاثر، 711 مویشی مارے گئے، 13 سپورٹس سہولیات اور 50 کمیونٹی بجلی گھر متاثر ہوئے ہیں۔
سیلاب کی بعد تباہی کے آثار نمایاں
جوں جوں سوات کی سیاحتی وادی بحرین کے دریا میں پانی کی روانی معمول پر آ رہی ہے اور راستے کھولے جا رہے ہیں توں توں تباہی اور نقصانات بھی واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
بحرین میں دریا کے کنارے جو مکانات، ہوٹل اور دکانیں تھیں ان میں سے کچھ کا تو نام و نشان نہیں رہا، وہاں صرف پتھر اور ریت اور یا پھر تیز پانی کی لہریں ہیں۔
بحالی کب تک ممکن ہے؟
نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 2010 کے سیلاب میں نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جس میں زرعی اجناس اور اگلے دو سال تک زرعی پیداروار میں کمی کو شامل کر دیا جائے تو 12 ارب ڈالر بن جاتا ہے۔
سیلاب متاثرین کی فوری بحالی اور امدادی اشیاء کی خریداری اور فراہمی، اور سیلاب سے تباہ شدہ سڑکوں کی بحالی کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سیاحتی وادی بحرین اور مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع کی بحالی کب تک ممکن بنائی جا سکتی ہے۔