جب روم جل رہا تھا تو نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا
محمد فہیم
ریاست پاکستان کے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئے جس کے بعد 30 نومبر کو کالعدم تحریک طالبان نے حملوں کا اعلان کر دیا؛ اس اعلان کے بعد پولیس اور سکیورٹی اداروں پر حملوں میں تیزی آ گئی اور ملک بھر میں عموماً جبکہ خیبر پختونخوا میں خصوصاً سکیورٹی ادارے ان شدت پسندوں کے نشانے پر آ گئے۔
اگر رواں برس کی بات کی جائے تو رواں برس خیبر پختونخوا میں 200 سے زائد دہشت گردی کے واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں جن مین سکیورٹی اہلکاروں سمیت 472 لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں کیے گئے حملوں کے نتیجے میں 19 افسران سمیت 61 فوجی جوان شہید ہوئے جبکہ افغانستان سے تقریباً 70 بار پاکستان کے سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
تحریک طالبان اور دیگر تنظیموں کی جانب سے حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو خیبر پختونخوا پر سب سے بھاری 2009 کا سال گزرا جب 360 سے زائد بم حملے ہوئے جن میں صرف پشاور میں 165 کے قریب دھماکے ہوئے تھے۔ اس برس کئی ایسے دن بھی گزرے جب ایک ہی روز دو دو بم حملے بھی ہوئے تاہم اس وقت بھی سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں کا ارادہ پختہ رہا جبکہ سیاسی حکومت بھی ان کی پشت پر کھڑی رہی۔
درجنوں اہلکاروں کی شہادت کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی، وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین اور سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور سمیت حکومتی شخصیات اور ارکان کابینہ فوری متاثرہ مقام کا دورہ کرتے اور جنازہ میں شریک ہوتے تاہم موجودہ دہشت گردی کی لہر میں یہ نقطہ غائب ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ معاملہ شاید اس کے الٹ ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت مکمل طور پر اس جنگ سے کنارہ کئے ہوئی ہے؛ وزیر اعلیٰ کے ٹوئیٹر اکاﺅنٹ سے ایک بیان جاری کر دیا جاتا ہے جس میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی جاتی ہے جبکہ کابینہ ارکان کے بیانات بھی ان کے پی آر اوز جاری کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے منتخب نمائندوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی ہے۔
کہاوت مشہور ہے کہ ”جب روم جل رہا تھا تو نیرو سکھ اور چین کی بانسری بجا رہا تھا۔” یہ کہاوت روم کے شہنشاہ نیرو کے بارے میں ہے تاہم جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ہفتہ کی شب اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تو اس کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان، صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی کی قیادت خوش گپیوں میں مگن قہقہے لگا رہی تھی اور اس کی تصویر وزیر اعلیٰ کے فیس بک اور ٹوئیٹر اکاﺅنٹ سے بھی شیئر کی گئی۔
جس وقت یہ قہقہے لگائے جا رہے تھے لکی مروت میں پولیس اہلکاروں پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا جس میں 4 پولیس اہلکار شہید اور 4 زخمی ہو گئے تھے۔
نیرو والی کہاوت وزیر اعلیٰ محمود خان پر بھی درست آتی ہے تاہم یہ اب نیرو والا دور نہیں ہے بلکہ ہر پل کی خبر ہر شہری کو ہو جاتی ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف جنگ سے خود کو کنارہ کش کرنا اور صوبے کی پولیس کو دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں اکیلا چھوڑنے کی سمجھ شاید سکیورٹی اہلکاروں کو بھی نہیں آئی۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملے کون کر رہا ہے اور کون کون ان میں ملوث ہے اب تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔ کئی حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے جبکہ داعش خراسان نے بھی کئی حملوں کی دعویداری کی ہے تاہم بیشتر حملوں کا اب تک کچھ واضح ہی نہیں ہو سکا ہے۔
پولیس اہلکاروں کو درکار وسائل اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے؛ اگر صوبائی حکومت کو پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ صوبے کی فکر بھی شروع ہو گئی تو پولیس کی ضرورت پر بھی نظر دوڑائی جائے۔
جو پولیس اہلکار شہید ہو جاتا ہے تو اس کے خاندان کو ایک کروڑ روپے کا پیکج دے دیا جاتا ہے جبکہ شہید کی 60 سالہ تک تنخواہ جاری کی جائے گی۔ اسی طرح ایک نوکری بھی دی جائے گی جبکہ ان کے گھر والوں کا علاج اور بچوں کی تعلیم کا خرچ بھی محکمہ پولیس برداشت کرتا ہے۔
ان تمام اخراجات کو صرف تب ہی برداشت کیا جاتا ہے جب پولیس اہلکار شہید ہو جاتا ہے، صوبائی حکومت کو یہ خرچ ان کی زندگی میں ہی برداشت کرنا چاہئے۔
جنوبی اضلاع میں حال ہی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں حملہ آوروں کی جانب سے امریکی ساخت کا جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے جبکہ انہیں نائٹ وژن کی سہولت بھی میسر رہی ہے لیکن یہ سہولت اور جدید اسلحہ پولیس کو میسر نہیں ہے۔ اگر حکومت یہ اخراجات پولیس کے اسلحہ اور سیکیورٹی پر کرے تو اہلکار کو شہید ہونے سے بچانے کا بھی بدوبست کر لیا جائے گا اور صوبہ بھر میں امن کا قیام بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔
تاہم اس کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ صوبائی حکومت اسے اپنا فرض سمجھے۔ آج بھی صوبے میں شورش کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے پرامن ملک دیا تھا، شورش کی ذمہ دار نئی حکومت ہے لیکن سیاست کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ یہ جنگ ریاست اور عوام کی ہے، کسی ایک سیاسی جماعت کو ملک میں لگی آگ پر ہاتھ سینکنے کا حق حاصل نہیں ہے۔