حمیرا علیم
16دسمبر 2014 ایک نہ بھلایا جا سکنے والا دن ہے یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے جب طالبان نے اے پی ایس پشاور پر حملہ کیا اور اسکول پر سات بھاری ہتھیاروں سے لیس طالبان جنگجوؤں نے دھاوا بول دیا جس میں 150 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے کم از کم 134 طلباء تھے۔ انہوں نے کسی کو یرغمال نہیں بنایا بلکہ ہلاک کیا۔
اس حملے کو پاکستان کا9/11 سمجھا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے آپریشن شروع کیا اور ان کو ختم کیا۔ اے پی ایس حملہ اپنی نوعیت کی ایک انتہائی سفاکانہ دہشت گردی کی کارروائی تھی جس میں معصوم بچوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں اور کامیابیوں کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی ہندوستانی را اور افغان این ڈی ایس نے کی تاکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کے عزم کو توڑا جا سکے۔
اس کے برعکس پاکستانی فوج اور قوم اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے عزم میں مزید مضبوط اور لچکدار بن کر ابھری۔
جب حملہ ہوا تو پاکستانی فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز حملہ آوروں کو گھیرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے دھماکہ خیز مواد سے لیس خودکش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ تصادم میں حملہ آور مارے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ حملہ تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہا۔ خوف زدہ والدین اسکول کے احاطے کے دروازے پر جمع ہوگئے۔
حملہ آوروں نے اسکول کے محافظوں کے لیے خلفشار پیدا کرنے کے لیے اپنی ہی گاڑی پر بمباری کی۔ مرکزی اسمبلی ہال میں داخل ہو کر، جہاں طلباء کا ایک بڑا گروپ ابتدائی طبی امداد کا سبق لے رہا تھا انہوں نے اندھا دھند گولیاں چلا دیں۔ حملہ آور جو دستی بموں اور خودکار رائفلوں سے لیس تھے کلاس رومز میں گئےجہاں انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کی۔
ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے اس قتل عام کو اپنے اراکین پر پرتشدد حکومتی حملوں کا بدلہ قرار دیا۔ اس قتل عام نے دنیا بھر میں مذمت کو جنم دیا۔ اس کے جواب میں، پاکستان نے چھ سال کی پابندی کے بعد سزائے موت کو بحال کیا اور بہت سے مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کو پھانسی دے دی۔
اگرچہ مجرم اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں مگر جن والدین کے بچے اس حملے میں شہید ہوئے ان کے دل کبھی بھی سکون نہیں پا سکتے جن ماؤں نے اس صبح اپنے بچوں کو معمول کے مطابق اسکول بھیجا اور واپسی پر ان کی خون آلودہ لاشیں پائیں ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں آنکھیں اپنے بچوں کو دیکھنے کو ترستی ہیں۔
بحیثیت ماں جب میں نے اے پی ایس حملے کی رپورٹس ٹی وی چینلز اورسوشل میڈیا پر دیکھیں تو ان ماؤں کا درد محسوس کیا۔ ایک شہید بچے کے والد علی نےبتایا، "میرے بیٹے محمد عزیر علی کو 13 گولیاں ماری گئیں اور انھوں نے اس کا گلا کاٹ دیا۔ اس کے چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم گولیوں سے چھلنی تھا۔”
آٹھویں جماعت کے عذیر علی نے حملہ آوروں کو دیکھا اور اپنے دوستوں کے اوپر لیٹ کر ان کی ڈھال بن گیا۔ 13 گولیاں لگنے کے بعد وہ زندہ نہیں بچا مگر وہ اپنے ساتھیوں کو بچانے میں کامیاب رہا۔ 14 سالہ فہد حسین نے ایک دروازہ کھولا تاکہ اس کے دوست وہاں سے نکل سکیں۔ وہ دروازے پر موجود رہاتاکہ ہر ایک کے انخلاءکو یقینی بناسکے۔ اسی کوشش کے دوران اسے نشانہ بنادیا گیا۔
میرے دو بیٹے بھی اے پی ایس کے اسٹوڈنٹس ہیں میں اس قسم کی سچویشن کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالٰی کسی شخص کو اولاد کا دکھ نہ دکھائے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے مگر والدین بچوں کے لیے موت کا تصور بھی نہیں کر سکتے کجا کہ اپنے بچے کا جنازہ اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتاریں۔ اگر کوئی بچہ طبعی موت مر جائے تو شاید والدین کو کبھی صبر آ جائے مگر اس طرح سے بیدردی سے قتل کر دیا جائے تو یہ دکھ والدین کے لیے زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔
اے پی ایس کے ٹیچر الطاف حسین اس سانحے میں شہید اپنی لخت جگر خولہ کو ابھی تک زندوں میں ہی شمار کرتے ہیں۔ حملے کے دن ان کی 6 سالہ کم سن بیٹی کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ الطاف حسین اس سانحے کے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں جن کے سینے پر لگنے والی تین گولیوں کے باعث جگر اور پھیپڑوں کو نقصان پہنچا تھا ۔ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے انگریزی کے استاد الطاف حسین نے حملے سے چار ماہ قبل ہی آرمی پبلک اسکول جوائن کیا تھا۔ خوف کے باعث ان کا بڑا بیٹا محمد ثمر ڈیڑھ سال تک نارمل نہ ہوسکا۔ بہن کے علاوہ دوسرے بچوں کو بھی اس حال میں دیکھنے والا محمد ثمر خود بچ نکلا لیکن تلخ اثرات کے باعث بات چیت بند کردی اور پڑھائی میں بھی انتہائی کمزور ہوگیااب آہستہ آہستہ محمد ثمر دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ رہا ہے۔
جو بچے زندہ بچ گئے وہ کبھی بھی اس ٹراما سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو کسی فلم کا کوئی ہارر سین، کسی قتل اغواء یا ڈکیتی کی خبر نہیں دیکھنے دیتے کہ کہیں وہ ڈر نہ جائیں نفسیاتی طور پر آپ سیٹ نہ ہو جائیں۔ذرا تصور کیجئے ان بچوں کا جنہوں نے اپنے اردگرد اپنے ساتھی کلاس فیلوز اور ٹیچرز کو مرتے دیکھا۔کیا وہ کبھی بھی اس منظر کی بھلا پائیں گے؟؟؟
اے پی ایس حملے میں زندہ بچ جانے والے بلال احمد خلیل نے بتایا: "میں کلاس روم میں پھنس گیا تھا۔ میرے دوستوں اور استاد کو میرے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میں نے مرنے کا ڈرامہ کیا۔ میرے دوستوں کی لاشیں کلاس روم کے فرش پر پڑی تھیں۔”
حملے کے وقت طارق جان کے بڑے بیٹے شمائل طارق نویں جماعت میں تھے اور دوسرے بیٹے منیال طارق آٹھویں میں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال سولہ دسمبر ان کے لیے اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جیسے کہ حملے کے روز تھا۔ وہ کہتے ہیں ان کی زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ ‘قیامت گزر رہی ہے ہم والدین پر، ہمارے بچوں پر، ہمارے گھر پر۔ میرے دو بیٹے شہید ہو گئے۔ دو بچے رہ گئے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ایک بہت دباؤ میں ہےدوسرا بیٹا ذہنی طور پر پریشان ہےوہ سبق نہیں پڑھنا چاہتا کہتا ہے مجھے نہیں پڑھنا۔ دو بیٹے چلے گئےدو ہیں لیکن ان کی اب تعلیم تو رہ گئی۔”
اسکول پر حملے کے وقت احمد نواز اپنے آپ کو مردہ ظاہر کر کے جان بچانے میں کامیاب ہو گئے مگر انہوں نے اپنی استاد کو آگ لگانے کے خوفناک واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
اللہ تعالٰی سب بچوں کی حفاظت فرمائے اور والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک برقرار رکھے۔شہدائے اے پی ایس کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر و اجر عطا فرمائے۔ آمین
سکون دل گیا نظروں سے سب قطارے گئے
چمن میں کھلتے ہوئے جب سے پھول مارے گئے
ہوائے موت ذرا دیر کیا ادھر آئی
کہ میرے ہاتھ سے اڑ کر مرے غبارے گئے
یہ کیسی کربلا برپا ہوئی پشاور میں
لہو میں ڈوبے ہوئے میرے بچے مارے گئے
انہیں ہی مرتبہ ملتا ہے جا کے جنت میں
حصول علم کی خاطر جو جان وارے گئے
چمن اجاڑنے والو تمہیں خدا سمجھے
تمہیں نہ آئی حیا پھول تو ہمارے گئے
رہے گا یاد ہمیں آنے والی نسلوں تک
وہ نقش پا جو یہاں خون سے ابھارے گئے
سلام میرا عظیمؔ ان شہید بچوں کو
جو اپنی جیت کی خاطر بھی جان ہارے گئے۔
شاعر: عظیم حیدر