وعدہ وفا نہ ہوا، علاقہ غیر آج بھی علاقہ غیر
محمد فہیم
پاکستان کا علاقہ جسے عرف عام میں علاقہ غیر کہا جاتا تھا اب علاقہ غیر نہیں رہا بلکہ پاکستان کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے باسیوں کے ساتھ غیر کا تعلق آج بھی روا رکھا جا رہا ہے۔
مئی 2018 میں پاکستان کی پارلیمان نے 25ویں آئینی ترمیم کرتے ہوئے 7 قبائلی ایجنسیوں اور 6 فرنٹیئر ریجنز کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دیا؛ 7 ایجنسیوں کو اضلاع کا درجہ دے دیا گیا جن میں خیبر، مہمند، اورکزئی، کرم، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور باجوڑ شامل ہیں جبکہ 6 فرنٹیئر ریجنز کو ان کے قریبی بندوبستی اضلاع کا حصہ بنا دیا گیا جن میں حسن خیل کو پشاور، درہ آدم خیل کو کوہاٹ، جنڈولہ کو ٹانک، جانی خیل وزیر کو بنوں، درازندہ کو ڈی آئی خان اور بیٹنی کو لکی مروت کی تحصیل بنا دیا گیا۔
قبائلی علاقوں کی مدد کا اعلان پورے ملک نے کیا اور جو وعدے کئے گئے ان میں سب سے بڑا وعدہ قبائلی علاقوں کو تین فیصد نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کا حصہ یا پھر ہر سال 100 ارب روپے کا ترقیاتی فنڈز فراہم کرنا بھی شامل تھا لیکن افسوس صد افسوس یہ وعدہ صرف اعلانات اور کاغذات تک ہی محدود رہ گیا۔
قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد 2018 کے عام انتخابات ہوئے، خیبر پختونخوا، پنجاب اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی، تحریک انصاف بلوچستان میں بھی اتحادی تھی اسے صرف سندھ میں مخالف جماعت کا سامنا کرنا پڑا تاہم ملکی سطح پر ہر جانب صرف اور صرف تحریک انصاف ہی تھی لیکن اس کا فائدہ ان قبائلی علاقوں کو نہ پہنچ سکا۔
تحریک انصاف ساڑھے تین سال وفاق میں براجمان رہی، عمران خان وزیر اعظم رہے لیکن قبائل سے کئے گئے وعدے ایفا نہ ہو سکے۔ تحریک انصاف کی اپنی پنجاب حکومت نے قبائل کو این ایف سی میں حصہ دینے سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کی اپنی اتحادی بلوچستان حکومت نے بھی اس ضمن میں مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا اور خیبر پختونخوا حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہی۔ سندھ میں مخالف جماعت پیپلز پارٹی نے بھی مدد نہیں کی لیکن صوبائی حکومت اس حوالے سے تمام ملبہ سندھ پر ڈالتی رہی پنجاب اور بلوچستان کے حوالے سے ایک لفظ تک ادا نہ کیا گیا۔
عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کیا تو پنجاب کے تمام ارکان یک زبان ہو گئے، خیبر پختونخوا کے ارکان نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ عمران خان بطور وزیر اعظم ایسا اعلان قبائل کیلئے بھی کر دیتے، پنجاب اور بلوچستان اگر قبائل کو وعدہ کے مطابق فنڈز فراہم کرتے تو سندھ کو بھی دباﺅ میں لایا جا سکتا تھا لیکن پنجاب اور بلوچستان سے بات تک نہ کی گئی اور قبائل کو صرف وعدوں پر ٹرخا دیا گیا۔
آج خیبر پختونخوا حکومت قبائلی اضلاع کی سب سے بڑی وکیل ہے جس کی سب سے بڑی وجہ وفاق میں مخالف جماعت کی حکومت ہے لیکن کیا گارنٹی ہے کہ کل کو دوبارہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو قبائل سے کیا گیا وعدہ پورا کیا جائے گا؟
خیبر پختونخوا میں گزشتہ 9 سالوں سے برسراقتدار ہونے کے باعث قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کرنے کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ باقی جماعتیں آزاد ہیں؛ پیپلز پارٹی جمہوریت کی چیمپئن جماعت ہے لیکن سندھ حکومت کا فنڈز نہ دینے کا معاملہ کبھی بھی خیبر پختونخوا اور قبائل میں موجود پیپلز پارٹی کی قیادت کے منہ پر نہ آ سکا، فنڈز مانگنا تو دور قبائل کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ہی سہی یہاں کی قیادت سندھ حکومت یا پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں بات کرنے کا وعدہ تک نہیں کیا اور صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ تک محدود رہے۔
جمعیت علماء اسلام تو قبائل کے انضمام کے حق میں ہی نہیں تھی آج وہ فخر سے کہتی ہے کہ قبائل کو اسی لئے حق نہیں ملا کیونکہ انضمام ہو گیا اور الگ صوبہ نہ بن سکا، اگر صوبہ بن جاتا تو یہ سب نہ ہوتا لیکن جمعیت نے کبھی بھی قبائل کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کیلئے ایک بیان تک جاری نہیں کیا، کم سے کم میری نظر سے مولانا فضل الرحمن کا ایسا کوئی بیان نہیں گزرا جس میں انہوں نے قبائل کے حق کی بات کی ہو۔ مولانا کی تقریر عمران خان سے شروع اور عمران خان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن نے خود کو امیر مقام تک محدود رکھا ہوا ہے۔ امیر مقام اس صوبے میں وفاقی اداروں کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن اسی صوبے میں قبائل بھی ہیں جو شاید انہیں نظر نہیں آ رہے۔ امیر مقام نے چند علاقوں کو ہی اپنا مان کر اسی میں کام شروع کر رکھا ہے باقی قبائل سے جس نے وعدہ کیا وہ جانے اور قبائل جانیں، ہاں! یہ الگ بات ہے کہ جب قبائل کا انضمام ہو رہا تھا تو مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور اس وقت قبائل کو مین سٹریم کرنے کا کریڈٹ مسلم لیگ ن ہی لے رہی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑتی جا رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انہیں انتخابی عمل میں لیول پلینگ فیلڈ فراہم نہ کرنا ہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی بھی حالیہ سیاست صرف اور صرف تحریک انصاف تک محدود ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی حکومتی جماعتوں کی اتحادی ہے، بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف اتحادی ہیں لیکن قبائل کے فنڈز کے معاملہ پر اب تک ان کی جانب سے بھی وزیراعظم سے ایسی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
صوبے میں اپوزیشن جماعتوں کا قبائل کے فنڈز کیلئے بات نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فنڈز ملنے کی صورت میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہی اسے خرچ کرے گی ایسے میں سیاست کیسے ہو گی؟ اور تمام کریڈٹ پی ٹی آئی کو مل جائے گا۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کی جنگ میں علاقہ غیر آج تک اپنا نہیں بن سکا اور اسے آج بھی غیروں کی نگاہ سے ہی دیکھا جا رہا ہے۔