حمیرا علیم
ہمارے شہر اسلام آباد کے باسی نہایت روح پرور، پرسکون اور آرام دہ ماحول میں رہنے کے عادی ہیں؛ اغواء، قتل، ڈکیتی کی اکا دکا وارداتیں ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہو سکتی ہیں بصورت دیگر اسلام آباد ایک محفوظ شہر ہے۔
راولپنڈی اگرچہ اسلام آباد جتنا پرسکون اور محفوظ تو نہیں مگر جڑواں شہر ہونے کی بدولت پاکستان کے اور بہت سے شہروں کی بہ نسبت بہتر ہے اس لیے جب کچے کے علاقے میں اغواء برائے تاوان کے کیسز کے بارے میں پڑھا تو حیرت ہوئی کہ لوگ میڈیا رپورٹس کے باوجود کیسے مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یا تو لوگ بے وقوف ہیں یا پھر مجرم ہوشیار!
ویسے تو کچے کا علاقہ ہمیشہ سے جرائم پیشہ افراد کی محفوظ ترین پناہ گاہ رہا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ مجرموں کا اسلام آباد ہے۔ جیسے ہمارے کرپٹ سیاستدان، حکمران اور آفیسرز ریڈ زونز میں سکون سے رہتے ہیں ویسے ہی مجرم کچے کے علاقے میں رہتے ہیں۔ پولیس اول تو وہاں جاتی نہیں اور اگر غلطی سے چلی ہی جائے تو اپنی ہی گاڑیوں میں ان کے یرغمال بن جاتے ہیں۔
یہ تو ماننا پڑے گا کہ پاکستانی جرائم پیشہ افراد نہایت ذہین اور اختراعی دماغ کے مالک ہیں۔ اس فقرے سے میرا مقصد خدانخواستہ مجرموں کی تعریف کرنا اور دوسروں کو جرم کی ترغیب دینا نہیں، میرے اگلے جملے شاید میری بات کی وضاحت کر دیں۔
دنیا بھر میں لوگ نئی نئی ایجادات کرتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں نت نئے طریقہ واردات ایجاد کیے جاتے ہیں۔ لنڈی کوتل کے عمران آفریدی نے فیس بک پر گاڑی بیچنے کا ایڈ دیکھا اور بیچنے والے سے فون پر بات کی جس کے بعد وہ گاڑی خریدنے کے لیے کشمور روانہ ہو گئے۔ جب وہ واپس نہ آئے تو گھر والوں نے فون پر رابطے کی کوشش کی مگر ان کا فون بند آ رہا تھا، انہیں اغواء کاروں کی طرف سے عمران پر تشدد کی ویڈیو ملی اور دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔
ذرا سوچیے ہمارے مجرم بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں مگر کرپشن اور جرم میں اس قدر ترقی یافتہ ہیں کہ امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
اس واقعہ نے مجھے ایک لطیفہ یاد دلا دیا۔ جاپان نے دنیا کی باریک ترین سوئی بنائی اور دنیا بھر میں اس کی نمائش کی۔مغرب سے لے کر ایشیاء تک تمام ممالک نے ان کی اس کوشش کو سراہا۔ جب سوئی پاکستان میں سے ہو کر واپس جاپان پہنچی اور جاپانی ماہرین نے اس کو خوردبین کے نیچے رکھا تو ماہر بے ہوش ہو گیا۔ جاپانی پریشان ہو گئے کہ اس نےایسا کیا دیکھ لیا کہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے ہوش میں لایا گیا اور استفسار کیا گیا تو اس نے کہا خود ہی دیکھ لیجئے۔ جب دوسرے ماہر نے خوردبین میں دیکھا تو سوئی پر لکھا تھا ”میڈ اِن پاکستان!”
تو جناب ہم پاکستانی دنیا بھر میں ہونے والی ایجادات سے متاثر ہوں نہ ہوں ہالی وڈ، بالی وڈ، چین اور کوریا کی ایسی موویز سے ضرور متاثر ہوتے ہیں جن میں کوئی ڈکیتی، قتل یا اغواء کی واردات اس طرح سے کی گئی ہو جس میں مجرم مکھن میں سے بال کی طرح بچ کر نکل جاتے ہیں۔
کشمور میں اب تک تقریباً 11 اور اگر آج کے ٹریکٹر والے جوان کا کیس شامل کیا جائے تو 12 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور 16 (اب 17) بندے اغواء کیے جا چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اغواکاروں کے گروہ نے کشمور میں درخان کے قریب انڈس ہائی وے پر ٹریکٹر ٹرالی کو روک کر تین افراد لال بخش، خلیل اور انور اوگھی کو اغوا کر لیا جن کا تعلق گاؤں خیر محمد منگھنار سے تھا۔
ایک سیکیورٹی گارڈ کو کشمور گینگ کے بچھائے گئے ہنی ٹریپ میں پھنسا کر اغوا کر لیا گیا۔ اسے تقریباً دو ماہ قبل اغوا کیا گیا، وہ ایک نامعلوم خاتون کے ساتھ اپنے فون پر پیغامات کا تبادلہ کر رہا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ کشمور کی رہائشی ہے۔ 24 ستمبر کو وہ خاتون سے ملنے کشمور چلا گیا اور پھر اس کے گھر والوں کو بھی اس پر تشدد کی ویڈیو تاوان کے مطالبے کے ساتھ موصول ہوئی۔
لیکن مجرم اگر اتنا ہی شاطر ہوتا تو ساری دنیا سلواڈور بن جاتی۔ کشمور کے اغواء کندگان کی بدقسمتی کہ انہوں نے جن لوگوں کو اغواء کیا ان میں سے بیشتر غریب لوگ ہیں اور وہ دو کروڑ تو کیا شاید دو لاکھ بھی نہ دے سکیں۔ مگر انہیں اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ لواحقین تاوان کی رقم کہاں سے لائیں گے۔ ان کو بس رقم سے غرض ہے۔
اس لحاظ سے بلوچستان کے اغواء کار عقل مند ہیں کہ جب بھی اغواء کرتے ہیں کسی بڑے ڈاکٹر، سرجن یا کامیاب ترین تاجر کو یا کسی سیاستدان کے رشتے دار کو اٹھا کر غائب کر دیتے ہیں اور کم از کم تاوان تین کروڑ سے دس کروڑ تک لیتے ہیں۔ اور اگر ذرا سی دیر ہو جائے تو بندہ ہی پھڑکا دیتے ہیں چنانچہ جونہی اغواء کندگان کا فون آتا ہے لواحقین ساری رقم ارینج کر کے فوری ادائیگی کر دیتے ہیں۔
ویسے تو ساری دنیا میں مجرم پولیس سے زیادہ جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہیں مگر بلوچستان کے مجرم تو لگتا ہے ڈائریکٹ اسرائیل، روس اور امریکہ سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ جابجا ڈبل کیبن گاڑیوں کے پیچھے بیٹھے بڑی بڑی پگڑیوں اور داڑھی مونچھوں والے گارڈز کے ہاتھوں میں ہینڈ گنز دیکھ کر بندہ خوامخواہ ہی مرعوب ہو جاتا ہے۔
روز رات کو کہیں نہ کہیں فائرنگ روز کا معمول ہے۔ کبھی کبھار دو گروپس میں لڑائی بڑھ جائے تو راکٹس اور میزائلز کا بھی تبادلہ ہو جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود بھی اغواء اور قتل کی وارداتیں ایسے ہی عام ہیں جیسے کہ کوئی کھانا کھانے ہوٹل جائے۔ اور چھوڑئیے پولیس کے اعلی افسران، ریٹائرڈ آرمی آفیسرز اور اعلی عہدے داران بھی ان سے محفوظ نہیں۔
ان سب کا سدباب کیا جا سکتا ہے اگر کوئی سنجیدگی سے ان کا خاتمہ کرنا چاہے تو۔ پر کتھوں!
ہمارے ایک فیملی فرینڈ ہیں جو کہ بلوچستان کے بڑے میڈیسن ڈیلر ہیں، وہ جب بھی نئی کار خریدتے ہیں کار چوری ہو جاتی ہے۔ ایک بار تو انہیں بھی کار کے ساتھ ہی لے جانے کی کوشش کی گئی مگر ان کے بارگین کرنے پر چند سڑکیں گھما پھرا کر انہیں تو اتار دیا گیا لیکن گاڑی واپس نہیں کی گئی۔ چونکہ اثر و رسوخ والے لوگ ہیں تو انہوں نے پولیس کے ذریعے کھوج لگوایا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کے وزیر اعلٰی رئیسانی صاحب کے فارم ہاؤس میں ایسی تمام کارز کھڑی ہیں۔جب ان کار لفٹرز کو پکڑا گیا تو چند منٹ بعد سی ایم ہاؤس سے کال آ گئی اور وہ چھوٹ گئے۔ اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت ان کی اگلی گاڑی نہ اٹھانے کی گارنٹی دی گئی لہٰذا اب وہ اپنی نئی نویلی کار میں اطمینان سے گھومتے ہیں۔
ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں کتی چوراں نال ملی ہوئی اے یعنی پولیس تو چوروں کی ساتھی ہے ہی وہ جنہیں ہم اپنا محافظ بنا کر لاتے ہیں وہ بھی اس کارخیر میں برابر کے شریک ہیں۔ کشمور کے اغواء کندگان کو بھی یقیناً کسی بڑی شخصیت کی پشت پناہی حاصل ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سولہ بندے اغواء ہو جائیں اور مجرم اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔
عوام کو چاہیے کہ اپنی مدد آپ کے تحت ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں اور ٹی وی چینلز پر آنے والے تمام پروگرامز دیکھیں جن میں ایسے مجرموں کو بے نقاب کیا جاتا ہے تاکہ آپ ان کے طریقہ واردات سے آگاہ رہیں اور اپنے آپ کو کسی بھی حادثے سے بچا سکیں۔