بلاگزجرائم

”محبت میں اتنی اندھی تھی کہ شوہر کو منع کرنے کی بجائے خود بھی اس کے ساتھ نشہ کرنے لگی”

شازیہ نثار

نشہ صرف زندگی نہیں، گھر بھی برباد کر دیتی ہے۔ اور ویسے بھی عورت کا آشیانہ درخت کے سب سے کمزور شاخ پر ہوتا ہے جس کو ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی تنکا تنکا کر کے اجاڑ دیتی ہے۔ خوبصورت زندگی گزارنے کی خواہش ہر کسی کا خواب ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے کچھ خواتین اس رنگوں بھری زندگی کو نشے کی لت سے خود ہی بے رنگ کرنے پر تلی ہوئی ہیں؛ خیبر پختونخوا میں خواتین میں نشے کا بڑھتا رجحان تشویش کی بات ہے۔

حکومت کے قائم کردہ منشیات بحالی سنٹر میں موجود خواتین سے ملنے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ نشے سے نہ صرف خاتون کے کردار اور عزت پر سوال اٹھتا ہے بلکہ اسے طلاق جیسے بدنما داغ کو بھی ماتھے پر لگانا پڑتا ہے۔

نشئی مرد اور عورت دونوں ہی طلاق کی وجہ بنتے ہیں۔ پختونخواہ میں اس لت کی وجہ سے طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے؛ نشہ بحالی سنٹر میں زیرعلاج نشے کی عادی خواتین میں اکثریت خواتین کو نشے کی وجہ سے طلاق ہو چکی ہے۔

بحالی سنٹر میں موجود 42 سالہ لبنیٰ نے بتایا کہ اٹھارہ سال پہلے اپنے شوہر نے نشے کا نلبین انجکشن لگوا کر دیا جس کے بعد روز انجکشن لیتی رہی، ”ایک بار مارکیٹ سے گھر جاتے ہوئے سڑک کنارے بیٹھے نشہ کرتے ہیروئنچیوں پر نظر پڑی تو پاس جا کر رکی، وہ دھواں مجھے میٹھا میٹھا لگا اس کے بعد سے ہیروئن لینا شروع کر دیا اور پھر گھر اور بچوں کو چھوڑ کر گھر سے نکل گئی، شوہر نے طلاق دے دی اور میں پارٹیوں میں دوستوں کے ساتھ جا کر وہاں نشے کے انجکشین، شراب اور أئس وغیرہ استعمال کرتی تھی۔”

لبنیٰ کے مطابق پشاور میں مختلف مقامات پر پارٹیاں ہوتی ہیں؛ نشہ بھی ہوتا ہے اور جنسی بے راہ روی بھی عروج پر ہوتی ہے، وہاں نشہ مفت ملتا ہے، پارٹیز میں یونیورسٹی گرلز، نرسز اور شادی شدہ خواتین بھی آتی ہیں۔ لبنیٰ خود بھی پڑھی لکھی اور فر فر انگلش بولنے میں بھی ماہر ہے۔

ایک دوسری حاملہ خاتون، 26 سالہ حنا کی کہانی کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جن کا کہنا تھا کہ 5 سال قبل محبت کی شادی کی؛ کچھ عرصہ تو سب ٹھیک تھا مگر کچھ دنوں میں پتا چلا کہ شوہر آئس اور نیلبین کے انجکشن بھی لیتا ہے، محبت میں اتنی اندھی تھی کہ شوہر کو منع کرنے کی بجائے خود بھی اس کے ساتھ نشہ کرنے لگی اور یوں دونوں نشے میں دھت پڑے رہتے، گھر والے، رشتے دار نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے، جانوروں سے بھی بدتر زندگی تھی، ”اللّه نے اسی دوران بیٹے سے نوازا اور ہم دونوں نشے میں پڑے رہتے، اب بیٹا 2 سال کا ہے، میں نے انجکشن لگا کر رکھا تو بیٹے نے اٹھا کر توتلی زبان میں کہا کہ ”امی مجھے بھی لگا کر دو” تو اسی دن سے فیصلہ کیا کہ اب نشے کی ذلت سے خود کو دور کرنا ہے۔

پشاور کے مختلف نشہ بحالی سنٹرز میں موجود نشئی خواتین میں زیادہ تعداد طلاق یافتہ خواتین کی ہے جو آئس اور انجکشن کے ذریعے اس زہر کو اپنی رگوں میں اتار رہی ہیں جس کے باعث خاندانی نظام بھی تباہ ہو رہا ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر اقتدار روغانی کا کہنا ہے کہ خواتین میں نشے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے شخصییت کے اندر ناگوار تبدیلیاں آتی ہیں اور دماغی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، ”اکثر ایسے کیسز ہمارے پاس آتے ہیں جن میں طلاق کی بنیادی وجہ نشے کا استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر نشے کی عادی خواتین اور کم عمر بچے جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔”

ماضی میں اس زہر قاتل، اس لعنت میں مبتلا خواتین کے کیسز تو سالوں میں سامنے آتے تھے جس کا شکار زیادہ تر اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کی طالبات ہوتی رہیں مگر شیشہ کے استعمال کو فیشن کے طور پر سانسوں میں بھرنے والی خواتین نشے کی لت میں اس بری طرح جکڑ چکی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے بڑے بڑے شہروں سے لے کر پسماندہ دیہات تک کی خواتین اس وباء کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button