طیب محمد زئی
خیبر پختون خوا کی تمام کچہریوں (سیشن کورٹس) کے احاطے سے ٹاوٹ ازم کا خاتمہ نہ ہو سکا جس کی وجہ سے نہ صرف عدالتوں میں انصاف کی فراہمی میں شفافیت بلکہ عدالتوں کے منصفانہ فیصلے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
آئے روز یہ خبریں دیکھنے، سننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں ضلع کی کچہری میں پولیس نے ٹاوٹ کو دھر لیا اور فلاں ضلعے کی کچہری کے احاطے میں ٹاوٹ کو پولیس کے حوالہ کر دیا گیا لیکن آج تلک اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی، کسی پلیٹ فارم پر اس حوالے سے آواز اٹھائی گئی نہ ہی اس کلچر کے خاتمے کیلئے کسی طرح کے عملی اقدامات کئے گئے۔
خیر ان سطور میں آج ہم پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچہری کی حدود میں ٹاوٹ نامی چیز ہوتی کیا ہے اور یہ کیا کیا کام کرتے اور کرواتے ہیں۔
تو جان لیجیے کہ کسی کچہری میں ٹاوٹ وہ بندہ ہوتا ہے جو نہ صرف پیسوں کے عوض ضامن بنتا ہے بلکہ کمیشن لے کر وکلاء کو کلائنٹس بھی فراہم کرتا ہے۔ اب آپ شاید یہ سوال اٹھائیں کہ پیسوں پر کوئی ضامن کیسے بنتا ہے؟
تو جناب اکثراوقات ضلعی عدالتوں میں ایسے ملزمان بھی پیش کیے جاتے ہیں جن کا تعلق دوسرے اضلاع سے ہوتا ہے اور دوسرے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایسے ملزمان کو جب ضمانت مل جاتی ہے تو قانون کے مطابق ملزمان کو اُسی ضلعے کے رہائشی یا رہائشیوں کو بطور ضامن عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے جس ضلع کی عدالت میں ملزمان کو پیش کیا جاتا ہے لہذا اکثراوقات ملزمان کو ضامن ڈھونڈنے میں مشکل ہو جاتی ہے جس کا فائدہ کچہری کی حدود میں موجود یہ ٹاوٹ اُٹھاتے ہیں۔
ٹاوٹ ایسے ملزم یا ملزمان جن کا تعلق دوسرے ضلع سے ہوتا ہے پیسوں کے عوض ان کا ضامن بن جاتا ہے۔ یہ جرم کو دیکھ کر پیسوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ٹاوٹ ضامن بننے کے لیے قتل، اقدام قتل، منشیات، ڈکیتی، رہزنی، جنسی زیادتی یا بدفعلی وغیرہ وغیرہ کے لئے الگ الگ معاوضہ مانگتے ہیں۔
ضامن بننے کے اس سارے عمل میں عدالتی عملے کے بعض لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور یوں دوسرے ضلع کے ملزم کو ضمانت پر عدالت سے رہا کر دیا جاتا ہے۔
ٹاوٹس صبح سویرے کچہری آتے ہیں اور مختلف عدالتوں کے کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس دوران وہ ساری صورتحال کا بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ کس ملزم کی ضمانت ہے اور کس ضلع سے اُس کا تعلق ہے۔ وکلاء کے جو منشی ہوتے ہیں اُن میں سے بعض منشی ان سے ملے ہوتے ہیں جو ٹاوٹ کا انتظام کرنے میں ملزمان کی مدد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سارے عمل میں منشی کا بھی اپنا کمیشن ہوتا ہے اور ٹاوٹ کے ساتھ ڈیلنگ بھی اکثر یہی منشی ہی کرتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق ٹاوٹ ازم کے باعث فوجداری مقدمات کے صاف اور شفاف ٹرائل متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ دوران ٹرائل اگر ملزم پیش نہ ہو تو پھر اُس کے ضامن کو گرفتار کیا جاتا ہے اور عدالت انہیں جرمانہ اور سزاء سناتی ہے لیکن اکثراوقات ٹرائل کے دوران ملزم کے روپوش ہو جانے کے بعد ضامن بھی روپوش ہو جاتے ہیں اور یوں ٹرائل کا سارا نظام متاثر ہو جاتا ہے اور فیئر ٹرائل ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔
ٹاوٹ ازم کے خلاف کاروائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن ٹاوٹس کے کچہریوں کے اندر کافی مضبوط تعلقات اور ایک موثر نیٹ ورک ہوتا ہے جس کی مدد اور تعاون سے ٹاوٹس اکثراوقات بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پشاور ڈسٹرکٹ کی ایک مثال ہمارے پاس موجود ہے۔ پشاور ڈسٹرکٹ بار کی ہر کابینہ ہر سال ٹاوٹ ازم کے خلاف کاروائیاں کرتی ہے اور ٹاوٹس کو پولیس کے حوالہ کر دیتی ہے، ہر سال عدالتوں کے باہر ٹاوٹس کی فہرستیں بھی آویزاں کی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان کو پہچان سکیں لیکن اس کے باوجود ٹاوٹس کچہری میں موجود رہتے ہیں اور پولیس اور بار کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
رواں سال بھی ڈسٹرکٹ بار پشاور نے ٹاوٹ ازم کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے جو ان لوگوں پر نظر رکھے ہوئی ہے لیکن اس کے خاتمے کے لیے جدید سٹم کو متعارف کروانا ہو گا اور اس سٹم کو ڈیجیٹلائز کرنا ہو گا مطلب ایک ایسی ایپ کو متعارف کروانا ہو گا کہ جس سے فوراً ان ٹاوٹس کی نشاندہی ہو سکے۔
وکلاء کے مطابق ضمانت کے رولز اور پالسیوں میں تبدیلی سے بھی ٹاوٹ ازم کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے مطلب اگر ایک ملزم اپنے ضلعے کا مقامی شخص ہے جس کے نام پر بجلی، گیس کا میٹر ہو اور یا سرکاری ملازم ہو وہ عدالت میں ضامن کے طور پر پیش ہو سکتا ہے جس سے ٹاؤٹزم کا 90 فیصد کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
بعض قانونی ماہرین کے مطابق بنچ اور بار کے آپسی تعاون سے بھی اس ٹاوٹ ازم کا خاتمہ ہو سکتا ہے کیونکہ ٹاوٹ ازم کو زندہ رکھنے میں بہت سے لوگ ملوث ہوتے ہیں لہذا بنچ اور بار مل کر اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے، ٹاوٹ ازم ہو یا ملک و قوم کو درپیش دیگر مسائل، یہ سب تب ہی حل ہو یا کئے جا سکتے ہیں جب حکومت یا متعلقہ اتھارٹی ایسا کرنے میں مخلص اور سنجیدہ ہو نہیں تو گزشتہ پچھتر سالوں کا سفر، اور مسائل کا انبار آپ، ہم سب کے سامنے ہے۔