حمیرا علیم
یونیورسل ہیلتھ کوریج ڈے ہر سال 12 دسمبر کو منایا جاتا ہے اور اسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے فروغ دیا ہے۔ تمام اقوام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو سستی، معیاری صحت کی دیکھ بھال فراہم کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں تمام لوگ بغیر مالی مشکلات کے معیاری صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کر سکیں۔
یونیورسل ہیلتھ کوریج لوگوں کو غربت سے نکالتی ہے۔ خاندانوں اور برادریوں کی فلاح و بہبود کو فروغ دیتی ہے۔ صحت عامہ کے بحرانوں سے بچاتی ہے۔ لیکن یہ چونچلے مغربی ممالک میں ہی ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی بے چارے تو کھانے پینے، بجلی، گیس اور پانی جیسی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں ہیلتھ کوریج تو ہمارے لیے ایک عیاشی ہے۔
اگرچہ تمام سرکاری محکمے اپنے ملازمین کو مفت علاج کی سہولت دیتے ہیں مگر چند ایک کے سوا باقی بس کاغذی کاروائی ہی کرتے ہیں۔ افواج پاکستان، اٹامک انرجی، نیس پاک، آڈٹ اینڈ اکاونٹس اور وزارتوں کے ملازمین تو اس سہولت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی استفادہ حاصل کرتے رہتے ہیں جبکہ ہم جیسے غریب پینل پر ہونے کے باوجود اپنے پلے سے ہی علاج کرواتے ہیں کیونکہ ہم سے ری امبرسمنٹ کے لیے اتنی رسیدیں مانگی جاتی ہیں اور پیسے دینے میں اتنی دیر لگائی جاتی ہے کہ ہم خود ہی خرچہ کرنے میں عافیت جانتے ہیں۔
مختلف حکومتوں نے اپنے ادوار میں عوام کو علاج معالجے کے لیے سہولیات مہیا کرنے کی کوشش ضرور کی؛ کبھی گرین اسٹار، مفت ڈسپنسریز، سرکاری ہاسپٹلز اور کبھی صحت کارڈ کے ذریعے عوام کے لیے آسانی پیدا کی گئی مگر سرکاری ہاسپٹلز میں بھی پیناڈول اور سرنج وغیرہ کے علاوہ کچھ بھی مفت میں نہیں ملتا۔
حالانکہ ایمرجنسی میں بورڈز پر بڑا بڑا لکھا ہوتا ہے کہ باہر سے کچھ بھی نہ خریدا جائے، ہاسپٹل سب کچھ مہیا کرے گا مگر ہاسپٹل مریض کے لواحقین سے نیڈل سے لے کر ہارٹ سرجری کی چار لاکھ کی کٹ تک منگواتا ہے اور ان سے خون کی بوتلیں لے کر بیچ بھی دیتا ہے۔
صحت کارڈ کی کہانی بھی بڑے مزے کی ہے؛ ہماری ایک جاننے والی بنوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بقول ان کے ان کے خاندان کے ہر ایک شخص کے پاس یہ کارڈ ہے اور وہ اس سے استفادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
لیکن پنجاب کے چند لوگوں کے تجربات کچھ اور ہیں۔ اس کارڈ کے ساتھ وہ جب کسی ہاسپٹل میں بچے کی ڈلیوری کے لیے گئے تو بچے کو سانس کا مسئلہ بتا کر چار دن تک ایڈمٹ رکھا گیا، پانچویں دن والدین تنگ آ کر بچے کو زبردستی ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو انہیں بتایا گیا کہ بچہ بالکل تندرست ہے۔ معلوم ہوا ہاسپٹل والے بل بڑھانے کے لیے بچے اور ماں کو زیادہ سے زیادہ روکنا چاہتے تھے۔
یعنی چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ میرا اسلام آباد راولپنڈی کے ہاسپٹلز کا تجربہ تو اچھا ہی ہے مگر کچھ کیسز سوشل میڈیا پر دیکھے جن میں مہنگے ترین پرائیویٹ ہاسپٹلز میں مریض کو انتقال کے بعد بھی ہاسپٹل میں رکھ کر لاکھوں کا بل بنا دیا گیا۔
کوئٹہ جا کر معلوم ہوا کہ وہاں تو ڈاکٹرز اور قصائی میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ 2 سے 5 ہزار فی لے کر سیکنڈز میں مریض بھگتا دیا جاتا ہے۔ سرجری کے نام پر لاکھوں بٹور کر صرف کٹ لگا کر مریض کو آپریشن تھیٹر سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔پرائیویٹ ہاسپٹلز کیس بگاڑ کر بندہ مرتے دیکھتے ہیں تو سول ہاسپٹل بھیج دیتے ہیں۔
ایک مشہور گائناکالوجسٹ نے بچہ ڈلیور کیا سیزیرین کے دوران انہوں نے خاتون کے پیٹ میں سسٹ دیکھی مگر نکالی نہیں۔ دوسرے دن خاتون کی طبیعت خراب ہونے لگی تو اسے گھر بھیج دیا، خاتون کو تکلیف بڑھی گھر والے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو انہوں نے سسٹ کے بارے میں بتایا۔ سول ہاسپٹل لے کر گئے تو ڈاکٹرز نے کہا کہ ایک آپریشن کے تیسرے دن دوبارہ آپریشن ممکن نہیں، یوں خاتون انتقال کر گئیں۔
ایک اور بڑے مہنگے اور مشہور ہاسپٹل کے سرجن نے مریض کا صحیح گردہ نکال دیا اور خراب والا اندر ہی رہنے دیا۔ کچھ دن بعد نوجوان فوت ہو گیا۔ یہ پریکٹس عام ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔
اگرچہ پوری دنیا میں ڈاکٹرز کی کوتاہی سے اموات ہوتی ہیں مگر دوسرے ممالک میں اگر ڈاکٹر کیولری ثابت ہو جائے تو اس کا لائسنس ضبط ہو جاتا ہے، اسے سزا بھی ہوتی ہے اور وہ دوبارہ پریکٹس بھی نہیں کر پاتا۔ جبکہ ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے؛ جو جتنا نالائق ڈاکٹر اتنی ہی بڑی فی اور اتنا ہی بڑا ہاسپٹل۔
ان حالات میں اگر حکومت مفت علاج کی سہولت دے بھی دے تو کیا فائدہ! ہم پاکستانی جیسے بجلی، پانی، گیس اور دیگر بنیادی ضروریات پر صبر شکر کر کے بیٹھے ہیں ویسے ہی صحت پر بھی اناللہ پڑھ چکے ہیں۔