”صحرا کو کیا معلوم کہ میرا بھائی پورے گھرانے کا چشم و چراغ تھا”
عبدالکریم
شام کے چار بج رہے تھے؛ سورج دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد ڈھلنے کی تیاری کر رہا تھا، سجاد اور ان کے خاندان کے چھ دیگر افراد کو حکم ملا کہ گاڑی میں جلدی جلدی بیٹھ جائیں، راستہ صاف ہے ایران کیلئے نکلتے ہیں، سجاد اپنے ساتھیوں کے ساتھ سامان سمیٹ کر ایجنٹ کے ایک بوسیدہ کمرے سے نکل کر پک اپ گاڑی میں بیٹھ گئے، دوپہر گزرنے کے باوجود اس علاقے میں سورج کی گرمی ناقابل بیان تھی۔
ایک لنگڑے ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی، ان کا ایجنٹ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہوا۔ ڈرائیور نے گاڑی تفتان (بلوچستان کا ایران سے متصل سرحدی علاقہ) کے شہر سے نکال کر سرحدی پٹی پر واقع وسیع صحرا میں دوڑا دی، چار گھنٹے مسلسل سفر کے بعد ڈرائیور نے گاڑی صحرا کے وسط میں کھڑی کر دی، صحرا میں اڑتی ریت کے سوا کسی جاندار کی آواز تک سنائی نہیں دے رہی تھی، ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔
صحرا میں ایجنٹ سعد نیچے اترا، سجاد اور ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ساتھیوں سے اضافی پیسوں کا مطالبہ کیا۔ ایجنٹ کی ان کے ساتھ تیس ہزار روپے فی کَس ایران کی سرحد پار کروانے کی بات ہوئی تھی لیکن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایجنٹ سعد نے پچاس ہزار دینے کا کہا جس پر بات نہیں بنی۔
ایجنٹ نے سب کو گاڑی سے اتار کر کھانا اور پانی لانے کے بہانے رات کے اندھیرے میں صحرا میں بے یارومددگار چھوڑدیا۔
یاد رہے سجاد اور ان کے خاندان کے چھ افراد نے؛ جن میں بلال، خلیق الرحمن، ابوبکر، عثمان، قیصر اور محمد ٖفیاض شامل تھے، گوجرانوالہ کے علاقہ وزیر آباد سے رزق کی تلاش میں ایران کیلئے رخت سفر باندھا تھا۔ یہ لوگ پہلے پنجاب سے کوئٹہ پر کوئٹہ سے تفتان پہنچے تھے۔
سجاد کے بھائی زاہد حسین نے اس دردناک کہانی کی بابت مزید بتاتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی اور دیگر ساتھیوں نے صبح تک ایجنٹ سعید کا انتظار کیا لیکن وہ نہیں آیا۔ صبح دس بجے میرے بھائی سجاد کی طبیعت گرمی کی شدت سے خراب ہوئی، ان کے ساتھ خوراک اور پانی نہیں تھا۔
سجاد کیلئے پانی لانے خلیق الرحمن ایک اور کزن کے ساتھ پانی کی تلاش میں صحرا میں نکلے لیکن اس سے پہلے سجاد نے اپنی زندگی اللہ کو سپرد کر دی۔ دوسری طرف خلیق الرحمن اور اس کے ساتھی نے بھی چاغی کے تپتے صحرا میں پیاس کی وجہ سے اپنی جان دے دی۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ایک ماہ تک میرے بھائی اور کزن کی لاشیں صحرا میں دھوپ سے جھلستی رہیں لیکن ان کو وہاں سے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا، ”صحرا کو کیا معلوم تھا کہ میرا بھائی پورے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔”
زاہد کے بقول ”یہ خبر ہمارے لیے کسی قیامت سے نہیں تھی جس نے پورے محلے میں کہرام مچا دیا۔ اس غم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دن کسی نے کھانا نہیں کھایا، یہ صدمہ ناقابل بیان ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل برداشت بھی ہے جس کی وجہ سے والدین کے ہوش و ہواس ابھی تک نہیں سنبھل سکے، وہ جب بھی سجاد کو یاد کرتے ہیں تو وہ رونے لگتے ہیں۔”
زاہد کا کہنا تھا کہ ماں باپ کے علاوہ سجاد اور خلیق الرحمن کے بیوی بچے اب در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ انسانی اسمگلرز ایران، عرب ممالک اور یورپ تک جانے کیلئے بلوچستان کے سرحدی علاقوں، مندبلو، کلدان، کلاتو، گوادر اور پنجگور کے چاغی اور ماشکیل کے ریتلی راستوں سے لوگوں کو سرحد پار کرواتے ہیں، اکثر اوقات سرحدی علاقوں میں ایرانی سرحدی اہلکار غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں پر فائر کھول دیتے ہیں۔
ظریف (فرضی نام) کوئٹہ میں مقیم ایک ایجنٹ ہے جس کے بقول پنجاب اور خیبر پشتونخوا کے لوگ اکثر ان سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ ان کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول خیبر پشتونخوا کے لوگ اکثر عرب ممالک اور پنجاب کے لوگ یورپ جاتے ہیں۔
ناخوشگوار واقعات کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ غلط ایجنٹ کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مشکلات جھیلتے ہیں۔
ظریف کے بقول بلوچستان میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے پنجاب سے یورپ جاننے والے لوگ ایرانی سفارت خانے اور قونصلیٹ سے زیارت یا سیاحت کا مختصر مدت کا ویزہ حاصل کر کے ترکی سرحد تک اب باآسانی پہنچ جاتے ہیں لیکن ایران کے دارالحکومت سے 14 سو کلومیٹر مسافت پر واقع سرحدی شہر بازرگان ماکو اور ترکی کے سرحدی شہر وان کے درمیان واقع برفیلے اور خون جما دینے والے پہاڑ پر سارا سال برف پڑی رہتی ہے، ان غیرقانونی راستوں پر سفر کرنا زندگی اور موت کا کھیل ہے۔ جو خوش قسمت اس کو سر کر کے ترکی کے سرحدی شہر وان پہنچ جاتے ہیں تو ان کا استقبال ترکی کے فوجی کرتے ہیں جو ان کو پکڑ کر واپس ماکو پہاڑ میں چھوڑ دیتے ہیں اور انھیں واپس ایران جانے کا کہتے ہیں۔
ظریف کے بقول غیرقانونی طور پر جانے والوں میں اکثر وہ لوگ ہیں جن کے اپنے قریبی عزیز باہر رہتے ہیں۔
فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے انسداد انسانی اسمگلنگ شعبے کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق تفتان میں جولائی سے ستمبر تک غیرقانونی طور پر سفر کرنے والے 8461 افراد پکڑے گئے تاہم اپریل اور مئی کے دوران اس میں کمی دیکھی گئی جبکہ جولائی سے ستمبر کے دوران اس میں پھر اضافہ دیکھا گیا۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق ستمبر 22021 کے دوران عدالتوں میں زیرالتوا کیسز کی تعداد 691 رہی جن میں بلوچستان زون کی تعداد بارہ رہی، بلوچستان میں 307 میں سے 279 کیسز میں ملزمان پر فردجرم عائد ک رکے انہیں پاسپورٹ ایکٹ کے تحت جرمانہ کیا گیا۔
اس کے ساتھ ایف آئی اے نے بلوچستان میں 1490 انکوائریاں کیں جن میں سے کوئٹہ سے 23 کیسز شامل تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کام کرتے ہیں۔
اس طرح کے غیرانسانی سلوک کا سامنا کرنے اور بلوچستان کے اس بے رحم اور بے آب و گیاہ ریگستان کی گرمی اور موت کا مقابلہ کرتے جان کی بازی ہارنے والوں کی کہانیاں سننے کے باوجود اب بھی لوگ ایک ان دیکھی دنیا کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے راستے میں تکلیف ہی تکلیف اور دکھ درد ہے۔