یومِ حقوقِ انسانی میں حقوق کہاں ہیں؟
ارم رحمٰن
انسان کو اشرف المخلوقات سمجھا جاتا ہے یعنی انسان قدرت کی تمام تخلیقات میں سب سے بہترین اور افضل تخلیق
ہے، تمام مخلوقات چرند پرند نباتات، جن میں زندگی ہے، حرارت ہے ان میں سب سے زیادہ محترم مخلوق قرار دی جاتی ہے کیونکہ عقل و شعور سے آراستہ پیراستہ دنیا میں بھیجی گئی ہے؛ اس کے فیصلے اور احساسات دوسری مخلوق پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان کی مثبت اور منفی سوچ اور عمل سے بہت کچھ تعمیر یا برباد ہو سکتا ہے۔ یہ وہ مخلوق ہے جس کی پہنچ ہر مخلوق سے بالاتر ہے اور انھیں عام زبان میں انسان کہا جاتا ہے۔
سب انسان پیدا ہوتے ہی کچھ بنیادی حقوق رکھتے ہیں جن سے انھیں کسی بھی صورت میں محروم نہیں کیا جانا چاہیے یا ان سے وہ حقوق چھینے نہیں جا سکتے۔ ان حقوق کا احساس سب سے پہلے جس چارٹر میں لکھا گیا اس کا نام "قرآن” ہے؛ 1400 سال پہلے یہ انسانوں کے درمیان پہنچ چکا ہے، چونکہ اسے صرف ایک مذہب اسلام سے جوڑا جاتا ہے یا منسوب کیا جاتا ہے اس لیے اسے پڑھنے اور سمجھنے کی سعی نہیں کی جاتی جبکہ اس کے نکات پر عمل کرنا تمام بنی نوع انسان کے لیے مفید اور کارآمد ہے، تمام نسل انسانی اس کے مطابق اپنے بنیادی حقوق سے روشناس ہو سکتی ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب کو ماننے والا ہو یا ملحد بھی ہو تو بحیثیت انسان وہ اپنے انسان ہونے کے احساس، اپنی اہمیت اور بنائے جانے کے مقصد کو سمجھ سکتا ہے، اپنے بنیادی حقوق کے حوالے سے آواز اٹھا سکتا ہے اور اس کے حقوق بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے دوسرے انسانوں کے!
اگر سطحی لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں "انسانی حقوق” کا احساس 76 سال پہلے ہی ہوا۔ اقوام متحدہ نے 10 دسمبر 1948 کو ایک اعلامیہ جاری کیا کہ حقوق انسانی کا خیال رکھا جائے، پھر 1950 سے ہر سال 10 دسمبر کو باقاعدگی سے منائے جانے کا فیصلہ کیا، پاکستان میں 1987 میں اور بھارت میں 1993 کو ایسا ایکٹ نافذ کیا گیا جو انسانی حقوق کے حوالے سے بنایا گیا۔ انسانی حقوق نافذ کرنے والی "اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی” نے جس کا پرچار شروع کیا۔
بنیادی طور ہر انسانی حقوق کیا ہیں جن کا اطلاق پوری دنیا کے سارے انسانوں پر یکساں ہونا چاہیے؟ سب انسان برابر ہیں؛ آزاد اور پرسکون زندگی گزارنا، عزت و احترام، صحت اور تمام بنیادی ضروریات زندگی پوری ملنا ان کا حق ہے، اور کسی قسم کا تشدد، عزت نفس مجروح کرنا، کسی بھی مذہب، مسلک، ذات پات، رنگ نسب نسل، طبقاتی فرق، امیر غریب، خواندہ، ناخواندہ، ڈگری یافتہ یا انگوٹھا چھاپ، سب کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں۔
یہ تو ہو گئی انسانی حقوق کی عمومی تعریف، اب کئی سوال اٹھتے ہیں: کیا تمام ممالک میں سب انسانوں کو یہ حقوق حاصل ہیں؟ کیا حالیہ دور میں ان بنیادی ضروریات کی تکمیل اور نگرانی کی جا رہی ہے؟ کیا عوام کا طاقتور طبقہ کمزور طبقے کا استحصال نہیں کر رہا؟ کیا امیر ریاست کمزور اور غریب ریاست پر تسلط قائم کرنے کی کوشش چھوڑ چکی ہے؟ کیا مسئلہ کشمیر کا حل نکل چکا ہے؟ دربدر فلسطینی اپنے وطن واپس پہنچ چکے ہیں؟ شام، اردن، لبنان، افغانستان، ایران سب ممالک اسرائیلیوں کے ظلم سے نجات پا چکے ہیں؟
اگر آپ کے نزدیک جواب "ہاں” میں ہے تو 10 دسمبر کا دن سب کو مبارک ہو!
اور اگر آپ کا جواب "ناں ” میں ہے تو برائے مہربانی یہ بتائیے ہم یہ دن کیوں منائیں؟
اور اقوام متحدہ کے نام نہاد بے بس چارٹر کے بنانے کا اب تک کیا فائدہ ہوا ہے؟
بھارت میں سکھ کمیونٹی، مسلم کمیونٹی اور دلت کتنی مشکل میں ہیں، کیا ان پر اس چارٹر کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کشمیر فلسطین کی عوام کس قدر اذیت میں ہیں کیا یہ اصول ان پر لاگو نہیں ہوتے؟ کیا تمام مغربی ممالک اسرائیل کے ظلم اور بربریت سے غافل ہیں؟ کیا مسلم برادری کو ان کے مذہبی شعار کے حوالے سے بہت جگہ پر تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا؟
چھوٹی اور ملکی سطح پر بھی بہت سی حق تلفیاں اور ناانصافیاں بالکل واضح ہیں لیکن اس وقت بات ہو رہی ہے اقوام متحدہ کے بنائے گئے چارٹر کی جو انسانی حقوق کے لیے بنایا گیا ہے۔ تو جناب ابھی تک یہ ادارہ ایک بھی بین الاقوامی مسئلہ حل نہیں کر سکا۔ اور جب اس کے پاس کوئی طاقت ہی نہیں تو چارٹر کا انعقاد کیوں؟ اور اگر طاقت ہے تو پھر دنیا بھر میں اتنی بے چینی، ذہنی اور جسمانی تشدد اور ناانصافی کیوں؟
اگر سب انسان برابر ہیں تو ابھی تک مغربی ممالک میں نسلی تفریق نہ چل رہی ہوتی، اگر انصاف کا ملنا بنیادی حق ہے تو کروڑوں انسان اتنی تکلیف دہ زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ عقوبت خانے، ذاتی جیل، کمزور طبقے کو غلام بنانا ابھی تک کیوں رائج ہے؟
آج کے دن اس طرح کے بہت سے سوالات سب کے ذہنوں میں ضرور اٹھیں گے کہ جیسے مزدورں کے عالمی دن پر مزدور کام میں لگے رہتے ہیں اور باقی لوگ ان کا دن مناتے ہیں، آج تک محنت کا معاوضہ کسی بھی ملک میں اتنا نہیں ملتا کہ غربت کا خاتمہ ہو سکے۔
عورت اور مرد کے درمیان جو فرق روا رکھا جاتا ہے دنیا بھر میں واضح ہے کہ عورت ہر جگہ کم تنخواہ پاتی ہے اور اس کے ساتھ ہراسگی اور جنسی تشدد میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، دہشت گردی اور دیگر جرائم دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں، کیا عورتیں اور بچے انسان نہیں؟
"اقوام متحدہ” کس جگہ اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے؟ یہ محض نام نہاد ادارہ ہے جو امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع ہے باقی اس کی کیا حیثیت اور اہمیت ہے تاحال واضح نہیں ہو سکی۔
اگر یہ دن منانا ہے تو پھر اقوام متحدہ کو بھی جگانا ہے کہ اس ادارے کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی ہے ان پر عملدرآمد بھی کیجیے۔ اگر نہیں کر سکتے تو پھر یہ ادارہ بند کر دیجیے کیونکہ اب کسی بھی ملک کے کسی بھی انسان کو اس کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور اگر کسی کو فرق پڑتا ہے تو وہ عام عوام میں شامل نہیں! جب سارے انسان اس سے مستفید نہیں ہو سکتے تو پھر اس کی موجودگی کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔
یوم حقوق انسانی اس دن منائیں گے جس دن اقوام متحدہ بین الاقوامی مسئلے حل کرنے میں کامیاب ہو جائے ورنہ نعرے بازی تو کسی بھی دن ہو سکتی ہے؛ جلسے جلوس اور پروپیگنڈا کے لیے تو سال کے 365 دن دستیاب ہیں جب دل چاہے بینرز اٹھائیں اور سڑکوں پر نکل آئیں، تصویریں بنوائیں، موم بتیاں جلائیں، ہلہ گلہ کریں اور اپنے اپنے گھر کو جائیں، اقوام متحدہ کو سونے دیں۔