افغان لڑکیوں کو پڑھنے دیں، پاکستانی سول سوسائٹی کا مطالبہ
رفاقت اللہ رزڑوال
انسانی حقوق کے کارکنوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت پر بچیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور کہا کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور مطالبہ ہے کہ افغان حکومت فی الفور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہٹا دے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا یہ مطالبہ ایسے حال میں سامنے آیا ہے کہ جب پوری دنیا میں آج یعنی 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس سال اقوام متحدہ نے اس دن کا موضوع ‘احترام، آزادی اور انصاف سب کیلئے’ رکھا ہے۔
افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے خلاف بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کو خواتین کے حقوق کے ساتھ جوڑا جائے۔
پشاور پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی کی ایک رُکن وگمہ فیروز نے ٹی این این کو بتایا کہ 15 اگست 2021 کے بعد جب افغانستان میں طالبان نے بزور طاقت حکومت پر قبضہ کیا تو اس وقت سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی گئی ہے اور اب تک افغان خواتین اپنے تعلیم کے حق کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
وگمہ نے بتایا "اسلام اور قوانین نے دونوں یعنی مرد اور عورتوں کو تعلیم کے حصول کا حق دیا تو پھر کیسے اور کس دلیل پر یہ حق چھینا جاتا ہے، میرا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اس خلاف ورزی پر سخت ایکشن لے۔”
وگمہ فیروز خواتین کی تعلیم کو پائیدار ترقی اور پرامن معاشرے کا راز سمجھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک بچی ایک خاندان کی بنیادی رُکن ہوتی ہے، جب وہ علم حاصل کرے تو وہ معاشرے کو ایک بہتر نسل دے سکتی ہے جو معاشرے کے روشن مستقبل کا ضامن ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت چھٹی جماعت سے اوپر تقریباً 1 ملین بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ بین الاقوامی برادری افغان حکومت سے بار بار مطالبہ کرتی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار پر پابندیاں ہٹائی جائیں۔
احتجاج میں موجود 18 سالہ منیبہ خان نے ٹی این این کو بتایا کہ لڑکی ایک خاندان کی بنیادی رُکن ہے تو کیا افغان حکومت اس بنیادی رُکن کو لاعلم، لاشعور اور دھرتی پر بوجھ دیکھنا چاہتی ہے یا اسے علم سے روشناس کرا کر ایک باکردار، باشعور اور بامقصد خاتون دیکھنا چاہتی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں جس طرح مردوں کا عمل دخل ہوتا ہے بالکل اسی طرح خواتین کی بھی ضروریات ہوتی ہیں اور انہی ضرویات کو پورا کرنے کیلئے خاتون کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔
منیبہ کہتی ہیں کہ اس وقت افغان خواتین کئی انسانی بنیادی حقوق سے محروم ہیں، ان کو علاج، نوکریوں، اور تعلیم کے حق سے محرورم رکھا گیا ہے جو مکمل طور پر انسانی اور اسلامی قوانین کے خلاف ہے اور مطالبہ ہے کہ فوری طور پر اس حق کو تسلیم کیا جائے۔
افغانستان کیلئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے جمعرات کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ افغانستان کی معیشت، استحکام، طالبان کی قومی اور بین الاقوامی حیثیت کافی حد تک خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک پر منخصر ہے۔
ویسٹ نے ٹویٹر پر لکھا ‘مولوی محمد یعقوب کی قیادت میں ابوظہبی میں ملاقات ہوئی ہے جہاں پر افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور باالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور استحکام کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔
ویسٹ نے لکھا ‘انہوں نے طالبان قیادت کو خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا کہا ہے تاکہ وہ تعلیم حاصل کریں اور کام کریں تاکہ وہ اپنے گھرانوں کی مدد کر سکیں۔’
رواں سال 23 مارچ کو افغان حکومت نے لڑکوں اور لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کیلئے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم دیا تھا مگر دوبارہ حکم کر کے چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کو دوبارہ گھروں پر بیٹھنے کا پابند بنایا تھا۔
طالبان کی وزارت تعلیم کا کہنا ہے ” جب افغانی دستور، روایات اور شریعت کےمطابق جامع حکمت عملی بن جائے یا قیادت کی جانب سے حکم ہو تب سکولوں اور کالجوں کو رسمی طور پر کھولا جائے گا۔”