طیب محمد زئی
فوجداری مقدمات میں ملزمان کے بری ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ پولیس کا تفتیشی نظام بھی ہے۔ پولیس کی ناقص تفتیش اور بیانات میں تضاد کے باعث مختلف قسم کے فوجداری مقدمات میں سے اکثریت ملزمان بری ہو رہے ہیں۔ کیونکہ عدالتیں فائلوں کو دیکھتی ہیں اور جس فائل میں تفتیش مکمل ہو تو اُس میں ملزم کا سزاء سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔
آپ لوگ بھی شاید سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے بھلا کیسے ہوتا یا ہو سکتا ہے؟
تو تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ جب کوئی ملزم جرم کر جاتا ہے خواہ وہ چھوٹا جرم ہو اور یا بڑا جرم، پولیس جائے وقوعہ پہنچ جاتی ہے اور سنا، دیکھا اور پڑھا ہو گا کہ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور شواہد اکٹھا کر کے تفتیش شروع کر دی۔ بس اسی طرح ہر واقعہ کی جگہ پولیس پہنچ جاتی ہے اور شواہد مطلب اگر قتل کا واقعہ ہو تو خون، مقتول کے کپڑے اور دیگر شواہد اکٹھا کرنا شروع کر دیتی ہے اور ساتھ اس دوران موقع پر موجود لوگوں کو گواہان کے طور پر لے لیتی ہے، خود پولیس اہلکار میں سے بھی کچھ گواہ بن جاتے ہیں اور اس طرح پولیس واقعے کا ایک نقشہ کینھچ لیتی ہے اور پولیس فائل تیار کرنا شروع کر دیتی ہے جسے عرف عام میں چالان کہتے ہیں۔
پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پولیس فائل میں چیزیں ایڈ ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یوں پولیس کی چالان کی فائل بڑھنے لگتی ہے۔ چالان فائل جب مکمل ہو جاتی ہے تو پولیس کے تفتیشی افسران وہی فائل عدالت میں مقدمے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ اس عمل کو قانون کی زبان میں ”put in court” کہتے ہیں اور یوں عدالت میں ملزم کے خلاف ایک مقدمہ شروع ہو جاتا ہے۔
دوران مقدمہ عدالت پہلے استعاثہ یا سرکاری گواہان کے بیانات قلمبند کرنا شروع کرتی ہے جس میں وہ پولیس اہلکار جنہوں نے تفتیش، شواہد اکٹھے کیے اور اس کے ساتھ وہ عام افراد جنہوں نے واقعے کی جگہ پولیس کو بیانات دیے یہ سارے آفیشل وٹنس مطلب استعاثہ کے گواہان کہلائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ کنندہ، تائید کنندہ اور ملزم کے بیانات قلمبند ہوتے اور وکلاء کے دلائل اور بیانات پر جرح ہوتی ہے اور آخر میں عدالت پھر فیصلہ سنا دیتی ہے۔
اس ساری پروسیڈنگ یا کارروائی کے دوران عدالت میں ایک بڑی فائل بنتی جاتی ہے جسے جوڈیشل فائل کہتے ہیں اور پھر جب فیصلہ سنایا جاتا ہے تو فُل ججمنٹ یعنی مکمل فیصلے کی ایک کاپی اس جوڈیشل فائل میں رکھ دی جاتی ہے۔ عدالت میں پولیس فائل جمع ہونے سے لے کر آخری فیصلے تک مکمل کارروائی کو مقدمہ یا ٹرائل کہتے ہیں لہذا اب آتے ہیں مدعے کی طرف!
ٹرائل کے دوران اکثر پولیس اہلکاروں کے بیانات تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو شواہد اکٹھے کئے ہوتے ہیں تو ان میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ تفتیش کے دوران بھی کچھ ایسے پوائنٹس رہ جاتے ہیں جنہیں وکلاء اپنا گراؤنڈ مطلب موقف بنا لیتے ہیں اور اس بنیاد پر عدالتوں سے ریلیف مانگتے ہیں۔
تفتیش میں خامیوں اور شکوک اور شہبات کے باعث ساٹھ فیصد سے زیادہ فوجداری مقدمات میں ملزمان بری ہو جاتے ہیں، یہ شرح منشیات کے کیسز میں بہت زیادہ ہے کیونکہ منشیات کے کیسز میں چین آف وٹنس یعنی گواہان کی ایک فہرست ہوتی ہے جو اکثر مقدمات کے دوران ٹوٹ جاتی ہے، مطلب گواہان کے بیانات اور رپورٹس میں تضاد آ جاتا ہے جس کے باعث عدالتیں ملزمان کو شک کا فائدہ دے دیتی ہیں۔
دوسری جانب جب یہ اعتراض پولیس افسران کے سامنے رکھا جائے تو اُن کے بقول پولیس کے پاس تھانوں میں تفتیشی عملہ انتہائی کم ہوتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہر تھانے میں درجنوں کیسز آتے ہیں جن کی تفتیش مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ تفتیش کے لئے افراد کے ساتھ ساتھ مالی وسائل بھی درکار ہوتے ہیں جو کہ اکثر تھانوں میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
پولیس حکام کی اس بات میں بھی جان ہے۔ کیونکہ تفتیش کے لئے جدید آلات اور مالی وسائل کے ساتھ تربیت یافتہ عملے کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہذا اس سارے معاملے میں تفتیش ایک واحد عمل ہے جس سے ملزم کو سزاء یا جزاء مل سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس صوبے میں جہاں پر دہشت گردی کی لہریں آتی اور جاتی ہیں، یہاں کی پولیس کو آج بھی وسائل و تربیت کی ضرورت ہے۔
ویسے بھی پختونوں کے آپس کی دشمنیوں نے بھی پولیس کے تفتیشی نظام کو تگنی کا ناچ نچایا ہے لہٰذا خیبر پختونخوا خصوصاً ضم اضلاع میں پولیس تھانوں میں تفتیشی عملے میں اضافہ کیا جائے اور ہر تھانہ میں تفتیشی عملے کو جدید سہولیات دی جائیں تاکہ ملزمان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں پولیس کو آسانی ہو۔
اعدادوشمار کے مطابق رواں سال اب تک خیبر پختون خوا کی ماتحت عدالتوں (سیشن کورٹس) سے 5 ہزار 57 مقدمات میں ملوث ملزمان کو سزا ہوئی اور یوں شرح 42 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال ملزمان کو سزاؤں کی شرح 34 فیصد تھی۔
اس بارے میں سی سی پی او اعجاز خان کہتے ہیں کہ پراسیکیوشن ایکٹ 2005 کے بعد نئے نظام کے تحت ملزمان سے جلد اعتراف جرم کرانا مشکل ہوتا ہے۔
خیر پراسیکیوشن حکام کے مطابق مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے 17 دن کے اندر چالان جمع کرانے سمیت تفتیشی پولیس افسر اور پراسیکیوشن میں کو آرڈینیشن کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے پر بھی غور ہو رہا ہے۔
حاصل بحث، بلکہ یوں کہہ لیں کہ وقت کی ضرورت ہے کہ جدید پولیسنگ کا نظام رائج کیا جائے، ملزمان کو سزاؤں کی شرح بڑھانے کیلئے پولیس اور پراسیکیوشن کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، کہ ایسا کر کے ہی انصاف کا بول بالا اور جرائم میں کمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ جب تک پولیس کے تفتیشی نظام کو مضبوط اور جدید نہیں بنایا جاتا عدالتوں سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا رہے گا۔