کاش ہم بھی ڈانس کیا کرتے تو کروڑ پتی بن جاتے!
ارم رحمٰن
سوشل میڈیا پر کچھ دنوں سے ایک نوجوان لڑکی کی ڈانس ویڈیو وائرل ہو رہی ہے؛ عائشہ نامی اس لڑکی نے اپنی دوست کی شادی میں ایک پرانے مشہور انڈین گانے پر ڈانس کیا اور دس دن میں دو کروڑ روپے کما لیے۔
اس لڑکی کے گانے کے انتخاب اور ڈانس کو اتنی پذیرائی ملی کہ مشہور ٹی وی چینل "اے ار وائی” کے مارننگ شو میں اسے خاص طور پر مدعو کیا گیا اور سب لوگ اس کے ہنر اور فن کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ اکثریت کو ملال بھی ہوا کہ کاش ہم بھی ڈانس کیا کرتے تو کروڑ پتی بن جاتے!
اس کی وائرل ویڈیو نے بہت سے سوالات سوچنے پر مجبور کر دیا ہے؛ کیا نوجوان لڑکی کا سرعام نجی پارٹی میں ڈانس کرنا واقعی اس کے باصلاحیت ہونے کا ثبوت ہے؟ کیا ہر جوان لڑکی کو اس لڑکی کے نقش قدم ہر چل کر اپنے لیے خاطر خواہ رقم کمانی چاہیے؟ کیا اب اس لڑکی کو دوسرے فنکشنز میں ناچنے کے لیے بھاری معاوضے کے عوض آفرز قبول کر لینی چاہئیں؟ تھیٹر ڈرامے کے مجرے اور فلموں میں آئٹم سونگز پر پریکٹس کر کے روزگار کے طور پر رقص کیا جا سکتا ہے؟
عجیب سی الجھن ہے کہ اگر اس طرح کی ڈانس ویڈیوز پر اعتراض کیا جائے تو شوبز کے لوگ بھی تو بہت مشہور ہوتے ہیں، لوگ ان کے آٹوگراف اور فوٹوگراف لینا پسند کرتے ہیں اور اگر ہم اپنی نوجوان کم عمر بچیوں کو اس طرح کی آزادی دیتے ہیں تو معاشرے کی ہر بچی ایسا کر کے لاکھوں کروڑوں روپے کمانے کے قابل ہو جائے گی۔
بچپن سے ہم ایک شعر سنتے آ رہے ہیں کہ
پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب
کھیلو گے کودو گے ہو جاؤ گے خراب
لیکن شاعر سے معزرت کے ساتھ آج کے موجودہ حالات میں یہ شعر اس طرح لکھا جانا چاہیے:
پڑھو گے لکھو گے بنو گے فقیر
ناچو گے، گاؤ گے بنو گے امیر
ایک طرف ڈاکٹر ولید ملک بھائی ہیں جنھوں نے حالیہ ایم بی بی ایس کے فائنل امتحان میں 29 گولڈ میڈل لے کر پاکستان کی نئی سنہری تاریخ رقم کی، وہ ماشاءاللہ حافظ قرآن بھی ہیں اور اب ڈاکٹر بھی، ان کے والد گرامی سفید باریش شریف شہری، اور انتہائی قابل انسان سی اے جیسے مشکل مضمون کے ماہر ڈگری یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر ولید ملک کے بڑے بھائی فزیو تھیراپسٹ ہیں، اس خاندان کے علمی قد کاٹھ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ علم حاصل کرنا باعث افتخار ہے لیکن جب اس ڈانس ویڈیو کی لڑکی کا خیال آتا ہے تو محض دس دن میں کروڑ پتی بن گئی بنا کسی محنت کے، تو عجیب سا موازنہ ہو جاتا ہے!
اس ویڈیو کے کچھ دنوں بعد پھر غلغلہ اٹھا ایک اور ڈانس ویڈیو کا جس میں باپ اپنی کم عمر بچی کے ساتھ ڈانس کر رہا ہے، دونوں شادی ہال میں سب کے سامنے انتہائی بے ہودہ گانے پر ایک جیسے سٹیپ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ باپ بیٹی کے مقدس رشتے کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اور جب باپ اپنی بیٹی کو نچوائے گا تو شرافت کی زبان میں اسے "شر، آفت” کہا جائے گا۔
اسی طرح کچھ ماہ پہلے محترم جناب وزیر امور داخلہ رانا ثناء اللہ خان صاحب کی صاحبزادی صاحبہ اپنی شادی سے کچھ دن پہلے تک بڑے نامناسب لباس میں کسی بدیسی گانے پر رقص کرتی دکھائی دیں اور ان محترمہ کی ویڈیوز کو بھی بہت سراہا گیا، ان کے سٹیپس بھی سب کو بہت خوبصورت لگے۔ بعد ازاں رانا صاحب نے ایک انٹرویو میں، جو اداکارہ ریما کو دیا، بہت شوق اور فخر سے بتایا کہ ان کی صاحبزادی رقص کی بہت گرویدہ و شوقین ہیں، بچپن سے اس فن میں مہارت رکھتی ہیں نیز وہ واحد دلہن ہیں جنھوں نے اپنی خود کی شادی میں کئی دن پہلے سے ہی ڈانس کر کر کے خود کو نڈھال کر لیا۔
ہم عام لوگ ناچنے گانے پر فتویٰ لگانے کے ہرگز مجاز نہیں نہ ہی کسی کی تذلیل و تضحیک مقصد ہے، اور نہ کسی کو روک سکتے ہیں لیکن شوقیہ ناچنا اور وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا، اگر دیکھنے والوں کی اکثریت ہو تو شاید ان ناچنے گانوں والوں کو بھاری رقم بھی دی جاتی ہے۔ واللہ اعلم
لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ناچ گا کر پیسے کمانے کا رجحان اس قدر فکر انگیز اور شرمناک ہے کہ ہم آنے والی جنریشن سے کیا توقع رکھیں کہ شدید محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کرنا جو کہ ہر مرد اور عورت پر فرض ہے ایسے تمام علوم سیکھنا جس سے رزق حلال کمایا جا سکے مرد کے لیے لازم و ملزوم ہے، ان کی جگہ ناچ گا کر پیسے کما سکتے ہو تو اترو میدان میں، بہت جلدی امیر کبیر ہونے کا آسان ترین حربہ!
شارٹ کٹ سے پیسے کمانا یعنی easy money ہمیشہ سے باوقار اور متین طبقے میں ناپسندیدہ رہی ہے، غیرت اور حمیت بھی جوان بچے بچیوں کی ڈانس کی پذیرائی نہیں کرتی اور نہ کبھی کرے گی۔
ہمارے معاشرے کی منافقت اور دوغلے پن کو ملاحظہ کیجیے کہ 8 مارچ کو ہونے والی آزاد طبع خواتین کے مارچ کو لوگ بہت ناگوار سمجھتے ہیں تو پھر یہ ناچ گانے والی ویڈیوز کو اتنا پسند کیوں کیا جا رہا ہے اور ہمیشہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا سب لوگ جو اس طرح کی ویڈیوز کو دیکھتے اور سراہتے ہیں کیا ان کے گھر میں بہن بیٹی نہیں، کیا اسے بھی ایسا کرنے کی اجازت ملے گی؟
اگر جواب "نہیں” میں ہے تو پھر ایسی ویڈیوز کو بالکل مت پسند کیجیے کیونکہ یہ ویڈیوز بھی کسی کی بہن بیٹی کی ہوتی ہیں۔ اگر جواب "ہاں” میں ہے تو پھر تعلیم اور شدید محنت لگن سے پڑھنے والوں کا کیا بنے گا؟ ڈاکٹر انجینئر، آرمی، پولیس اور بہت سے سخت شعبے جہاں ایسی چھچھوری حرکتوں کی گنجائش نہیں ہے انہیں کون چنے گا؟
کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے کم عمر اور نادان بچوں کو اس روش پر چلنے کی اجازت دینا ہماری ثقافت، ہماری روایات، ہمارے تہذیب و تمدن کے منافی نہیں ہے، ہماری وضع داری اور ہماری رواداری کے خلاف نہیں؟
مناسب تعلیم اور تربیت کے بعد اگر اداکاری کے شعبے میں جاتے ہیں تو شاید ہمارا معاشرہ ہضم کر سکے لیکن ہر گلی محلے میں اس طرح کے ناچ گانے والی ویڈیوز بنیں گی تو پاکستان جس کی شرح خواندگی 60 فیصد سے بھی کم ہے جہاں 8 کروڑ لوگ بالکل غربت کی آخری سطح پر اپنے جسم و جان کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ان کو کیا نصحیت ملے گی؟
وہاں تعلیم، ہنر اور محنت حاصل کرنے کا رجحان شدید کم ہونے کا امکان ہے۔ علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا آج کے حالات دیکھ کر ان کی روح بھی تڑپ اٹھتی ہو گی۔ ان کا ایک شعرجو انھوں نے لکھا تو ایک صدی پہلے تھا لیکن آج بھی انتہائی موزوں ہے:
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے؟
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
جن قوموں کی عوام اور نئی نسل رقص و سرود کی دلدادہ ہو ان کے بازو قلم اٹھانے سے شل ہو جاتے ہیں، گھنگھرو کی تھاپ پر ناچنے والے پیر اپنی منزل کے راستے پر پھیلے کنکروں پر چلنے کے قابل نہیں رہتے۔
پیغمبر، صحیفے سب آ چکے، قیامت تک کا سارا انتظام ہو چکا ہے، نہ کوئی بتانے آئے گا نہ سمجھانے اب فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے کہ انھوں نے اپنی نئی نسل کو کس طرف لے کر جانا ہے؟ بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا ہے کہ جو ایک بھیڑ بکری کرے باقی بھی وہی کرتی جائیں یا پھر قوم و ملت کا درخشاں ستارہ بنانا ہے کہ دشمن کی جرات نہ ہو سکے کہ پاکستان کی طرف میلی نگاہ ڈال سکے۔
پڑوسی سونیا گاندھی نے بہت عرصے پہلے بیان دیا تھا کہ بھارت کو پاکستان پر حملے کرنے کی ضرورت نہیں ہماری ثقافت ہی کافی ہے۔
اب آپ کی مرضی ہے ان محترمہ کی بات کو درست ثابت کر دیں یا نظریہ پاکستان کی بنیاد کو!