سوات: سیلاب نے 40 ہزار آبادی کو واحد بی ایچ یو سے محروم کر دیا
رفیع اللہ خان
سوات میں سیلاب نے ہسپتالوں اور صحت کے دیگر مراکز کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے لوگ سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق سیلاب سے پہاڑی علاقے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں جس میں سب سے زیادہ نقصان تحصیل بحرین میں سامنے آیا ہے۔
کالام کے سیاحتی مقام اتروڑ میں بھی بنیادی مراکز صحت کا آدھا حصہ سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ علاج کی سہولت سے محروم ہیں۔
اتروڑ کے رہائشی سماجی کارکن غلام علی نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ 40 ہزار آبادی کیلئے قائم واحد بی ایچ یو دریابرد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو صحت کی سہولیات بھی مل نہیں پائی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کی وجہ سے یہاں مختلف قسم کی بیماریاں پھیل چکی ہیں، ”یہ سیلاب جو آیا تھا تو دو ہفتوں تک تو سڑک بند تھی اور ڈاکٹر حضرات مینگورہ میں پھنس کر رہ گئے تھے جبکہ یہاں بچوں میں بخار، ہیضہ اور دیگر بیماریاں پھیل گئی تھیں، یہاں جو لوکل ٹیکنیشنز تھے وہ اپنے طور تو علاج معالجہ کروا رہے تھے لیکن یہ ہے ککہ وہ بی ایچ یو مکمل طور پر خراب ہو گیا تھا اور اس میں ڈاکٹروں کے رومز اور دیگر جگہیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں تو آج کل بی ایچ یو کا یہ حال ہے کہ یہ بالکل ناقابل استعمال ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اس پر کام شروع کرے، مینگورہ، مدین کے ہسپتال بہت دور ہیں، لوگ افورڈ نہیں کر سکتے (کیونکہ) کرایے بہت زیادہ ہیں۔”
محکمہ صحت کے اہلکار ڈاکٹر کفایت اللہ نے بتایا کہ پی ڈی ایم اے کے سیلاب الرٹ کے بعد محکمہ صحت نے مختلف بی ایچ یوز کو علاج و دیگر سامان پہنچا دیا تھا تاہم سیلاب توقع سے زیادہ شدید تھا تو ان بی ایچ یوز اور ہسپتالوں میں موجود ادویات ناکافی ہیں۔
انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ اب حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، ”اس وقت ہمارے یہ تین چار بنیادی ایشوز تھے؛ کمیونیکیشن نہیں ہو پا رہی تھی، ہمارا اپنا جو سٹاف اِدھر تھا ان کی اپنے ہسپتالوں تک رسائی نہیں ہو پا رہی تھی، میڈیسنز جو تھیں ان کی سپلائی میں ہمیں بہت مسئلہ تھا کیونکہ سڑکیں بند تھیں لیکن پھر بھر بہت سے ایسے لوگ تھے جو گھاٹیوں میں سیلاب کی وجہ سے کٹ کر رہ گئے تھے اور لوکل ہسپتالوں تک بھی نہیں جا سکتے تھے، اس کے بعد جب سڑک بحال ہوئی تو اس کے بعد مختلف تنظیمیں آئیں جن میں ڈبلیو ایچ او تھی اور بہت ساری بین لاقوامی اور مقامی تنظیمیں تھیں، اور مختلف فاؤنڈیشنز تھیں، جس کے بعد شروع کے دنوں میں تقریباً اک ماہ کے دوران ہم نے مختلف گاؤں دیہاتوں میں 80 سے زائد فری میڈیکل کیمپس لگائے، ادھر سوات میں ہمارے پاس قے دست کی شکایت بہت زیادہ ہو گئی تھی؛ فلڈز یا ایمرجنسی میں رسپانس دینے کا اپنا ایک سٹینڈرڈ طریقہ کار ہے تو ہماری بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس سٹینڈرڈ طریقہ کار کو فالو کریں لیکن پھر بھی اس میں ایشوز بہت زیادہ آتے ہیں کیونکہ ہماری کمیونٹی کا اس طرح کا رسپانس نہیں ہوتا، ہمارا ہیلتھ سسٹم بھی اس طرح تار نہیں ہوتا تو ایشوز ضرور ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہیلھ ڈپارٹمنٹ کی کوشش ہے کہ جو انٹرنیشنل سٹینڈرڈز ان کو فالو کیا جا سکے۔”
اس سیلاب زدہ علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون گل مینہ نے بتایا کہ سیلاب نے سارا علاقہ تباہ کر دیا ہے، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث وہ بیمار ہو گئی ہیں اور علاج معالجہ کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ان کی تکالیف دوچند ہو گئی ہیں، ”جب یہاں سیلاب آیا تو ہمارے گاؤں کے لوگوں پر بہت سی مصیبتیں آئیں، صحت کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہو گئی، پینے کا پانی نہیں تھا، ادویات نہیں تھیں اور سخت مریض سڑک خراب ہونےکی وجہ سے یہاں رہ جاتے، حالات جب تھوڑے نارمل ہوئے تو ہیلی کاپٹر کی سروس شروع ہوئی لیکن وہ بھی پینتالیس ہزار آبادی کے لئے ناکافی تھی، ادویات ایک محلت تک پہنچ جاتیں تو باقی رہ جاتے، موجودہ وقت میں بھی ہمارے علاقے میں صحت کی صورتحال بہت خراب ہے، لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے اور خواتین کے ڈیلیوری کیسز کیلئے بھی کوئی سہولت نہیں، ڈیلیوری کیسز کیلئے لوگ مینگورہ جاتے ہیں اور سڑک کی حالت چونکہ بہت خراب ہے تو مریض کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔”
بی ایچ یو اتروڑ کے انچارج ڈاکٹر محمد اقبال نے ٹی این این کو بتایا کہ دریا کا بند ٹوٹنے کے بعد مٹاثرہ دیہاتوں میں فی میڈیکل کیمپس لگائے گئے تاہم طبی عملے کو بنیادی ضروریات کے فقدان کا سامنا ہے، ”فرنیچر ہمارے پاس نہیں ہے خراب کر دیا ہے، آلات اور کٹس بھی خراب کر دیئے ہیں اور جو میڈیسن ہیں وہ وقت پر ہمیں سپلائی کی جائیں، ہمیں بنیادی مسئلہ یہی درپیش ہے کہ ادویات وقت پر نہیں ملتیں، یہ کام اگر ہو جائے تو یہ ہمارے اور علاقے کیلئے بہت اچھی بات ہو گی، بجلی، سولر سسٹم ترجیحی بنیادوں پر ہمارے لئے اس کا بندوبست ہو جائے اور پینے کا پانی اور سینیٹیشن ہمارے لئے بہت ضروری ہیں۔”
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق سوات میں کل 76 ہسپتال اور بی ایچ یوز ہیں جبکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے 15 ہسپتالوں اور بی ایچ یوز کو نقصان پہنچا ہے۔