خواجہ سراؤں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ شازیہ مری
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اپنے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ حکومت نے خواجہ سراؤں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بیسپ) میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے کو انسانی حقوق کے کارکنوں نے سراہا ہے۔
3 دسمبر کو سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں وفاقی وزیر برائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ عطا مری نے کہا ہے کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کا خیال رکھنا حکومت کا فرض ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو خواجہ سراؤں کی زندگی میں کسی قدر سہولتیں فراہم کرے گا مگر خواجہ سراؤں کی زندگی مزید بہتر بنانے کیلئے 2018 کے قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔
بے نظیر انکم سپورٹ کی چیئرپرسن شازیہ مری کہتی ہیں کہ پروگرام سے فائدہ اُٹھانے کیلئے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا آغاز ہو چکا ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے متعلقہ خواجہ سرا اپنا شناخت کارڈ نادرا سے بطور خواجہ سرا رجسٹرڈ کرائے گا جس کے بعد اپنی ہی ضلعی کے بیسپ دفتر میں خود کو رجسٹرڈ کرائے گا۔
شازیہ مری کہتی ہیں کہ اندراج کے بعد ہر خواجہ سرا کو تین ماہ بعد 7 ہزار روپے ملیں گے جس کا آگاہی پیغام ان کے موبائل فون پر 8171 سے موصول ہو گا۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں خواجہ سراؤں کو شامل کرنے کا فیصلہ ایسے حال میں کیا گیا ہے جہاں پر پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے ساتھ انتظامی اور معاشرتی سطح پر امتیازی سلوک، ان پر تشدد اور ان کی مشکلات کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
”مرکزی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو خوش آئند سمجھتے ہیں، اس سے پہلے بھی خواجہ سرا اہل تھے، حکومتوں نے خواجہ سراؤں کو قومی سکیموں میں شامل کرنے کے دعوے کئے تھے مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ فیصلے میں ان خواجہ سراؤں کو شامل کرنے کا کہا گیا ہے جو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے مگر درحقیقت خواجہ سراؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔” خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیم بلیو وینز کے قمر نسیم نے بتایا۔
نادرا ڈیٹا
سال 2017 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10400 تک ہے مگر قمر نسیم ان اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق خیبر پختونخوا میں 45 ہزار جبکہ پورے ملک میں تقریباً 5 لاکھ خواجہ سرا رہتے ہیں۔
قمر نسیم کے مطابق غربت اور دیگر مسائل چیریٹی سے ختم نہیں ہو سکتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ 2018 کے قانون کے مطابق صوبائی اور وفاقی بجٹ میں ان کے لئے فنڈز رکھے جائیں۔
پشاور میں مقیم خواجہ سراؤں کے حقوق کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کی صدر فرزانہ الیاس نے ٹی این این کو بتایا کہ خواجہ سرا حکومت کے مذکورہ فیصلے کو اچھا اقدام تصور کرتے ہیں مگر ان کا مطالبہ ہے کہ اس فیصلے کو فوری طور پر نافذ کیا جائے تاکہ گزشتہ کئے گئے وعدوں کی طرح یہ بھی صرف وعدہ ہی نہ رہ پائے۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ 7000 روپے یقیناً بہت قلیل رقم ہے مگر ان کے بنیادی اخراجات اور کھانے پینے کے لئے اشیائے ضروریہ خریدنے میں سہولت فراہم کرے گی۔
صدر ٹرانسجینڈر فرزانہ نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے گزشتہ ادوار میں ان کے لئے فلاحی سکیمیں متعارف کرائیں تھیں جیسا کہ احساس پروگرام اور ان کو نوکریاں دینا مگر ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ ان کے مطابق اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت فوراً اس فیصلے کو عملی جامہ پہنائے۔
ٹرانسجینڈر پرسن (رائٹس پروٹیکشن) ایکٹ 2018
اس قانون کے مطابق پورے ملک میں خواجہ سراؤں کو مساوی حقوق اور تحفظ دیا جائے گا، خواجہ سراؤں کو صحت، تعلیم، انصاف، نوکری، ووٹ، اجتماع، جائیداد کی خریداری اور ہر قسم دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی جبکہ حکومت ان کی فلاح و بہبود کیلئے ہر قسم کی سکیمیں متعارف کرائے گی۔
قانون کے مطابق اگر کوئی ادارہ یا فرد خواجہ سراؤں کے تحفظ کے قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسے جرمانے کے ساتھ ساتھ قید بھی ہو سکتی ہے۔
مگر صوبے کی خواجہ سرا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ 7 سالوں میں 81 خواجہ سراؤں کو قتل کیا جا چکا ہے مگر آج تک کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ملی ہے۔