سردی کی لہر؛ کورونا کا خطرہ پھر سر اٹھا سکتا ہے؟
ماہرین صحت و نفسیات و سماجی رہنماؤں کی فکر انگیز گفتگو
عمرانہ کومل
کووڈ 19 ایک ایسی عالمی وبا ہے جس پر آنے والے وقت میں جتنے بھی کیلنڈر تبدیل ہوں سال 2019 ہی کا لیبل چسپاں رہے گا۔ اکیسویں صدی میں اس وباء کو جھیلنے والے خواہ وہ اس کاشکار ہوئے یا انہوں نے کسی اپنے کو اس میں مبتلا دیکھا یا کسی قریبی رشتہ دار دوست یا ساتھی کو کھو دیا، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس وبا نے اس کی نوکری، کاروبار یا طرز زندگی پر بُرے اثرات مرتب کئے ہوں یا لاک ڈاؤن کی پابندیاں سہنا ہی اس کے لئے وبال جان ہو، ماسک لگانا، ایس او پیز پر عمل کرنا بوجھل محسوس ہوتا ہو۔۔ وہ سبھی عورتیں مرد بچے جواں و بزرگ کووڈ 19 کے اثرات ہی کے قصے کہانیاں سُنا سُنا کر ایس او پیز پر عمل کرنے کی ترغیب دے بھی رہے ہیں اور مستقبل میں بھی دیں گے کیونکہ علامات بدل بدل کر ہر سال سردیوں کے موسم میں حملہ کرنے والی وبا سے بچاؤ ہی شعوری بیداری اور احتیاطی تدابیر ہیں جن کو ہم عادت کا حصہ بنا کر اپنی اور اپنوں کی زندگی میں صحت اور خوشیوں کی نعمت برقرار رکھ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہمسایہ ملک چین میں آئے روز کووڈ 19 کے کیسز میں پھر سے اضافہ جہاں انسانیت کے لئے دکھ کا عندیہ ہے پڑوس سے آنے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ چین میں 23 نومبر کو 31 ہزار 527 کیسز کی تصدیق ہوئی جو وبا کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اس سے قبل اپریل 2022 میں 29 ہزار 317 کیسز رپورٹ ہوئے تھے مگر اب یہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ دارالحکومت بیجنگ اور گوانگزو کووڈ کی حالیہ لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ مگر اب بھی روزانہ رپورٹ ہونے والے لگ بھگ 90 فیصد کیسز ایسے ہیں جن میں مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ گو کہ حالیہ لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہو کر 6 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکثر کا تعلق بیجنگ سے تھا۔
چین میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے اب تک کووڈ 19 کے باعث 5200 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ زیرو کووڈ پالیسی سے زندگیوں کو بچانے میں مدد ملی ہے۔
دنیا کے مغربی ممالک سمیت ایشیاء میں بھی سردی کا موسم مکمل طور پر آ چکا ہے ایسے میں نزلہ، زکام اور سانس کی بیماریاں عام ہوں گی۔ درحقیقت، بحرالکاہل (اوشیانا) ممالک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فلو کی لہر 23-2022 میں خاص طور پر شدید ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ یورپ میں اقدامات کیے جائیں اور صحت کی بنیادی سہولیات کو مربوط کیا جائے کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت پڑے گی۔
کووڈ میں سانس لینے میں مشکل کی علامات کے علاوہ (جن میں نزلہ سے جان لیوا نمونیا تک شامل ہو سکتا ہے) ہمیں ایک اور تشویشناک حقیقت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے سارس کووڈ 2 (کووڈ) اور سانس کے دیگر وائرس دل کے امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ سردی کی شدت جہاں موسمی امراض وائرل نزلہ زکام بخار سانس گلے کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں اور ان کا علاج دیسی ٹوٹکوں، چند احتیاتی تدابیر اور متعلقہ معالج کے علاج سے ہوتا ہے اب وہاں سردیوں کی بیماریوں میں ایک اور وبائی مرض کووڈ 19 کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔
وزارت صحت حکومت پاکستان کی ویب سائٹ https://covid.gov.pk/ بتاتی ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کنفرم کیسز 1،575،225 ہیں جبکہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران 40 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ کُل اموات 30،632 جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک فرد زندگی کی بازی ہار گیا۔ اسی طرح پاکستان میں کورونا کے کُل 1،543، 849 مریض صحت یاب ہوئے جبکہ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں 30 مریض روبہ صحت ہوئے۔ پاکستان میں کورونا کے کُل ٹیسٹ 31،041،720 ہو چکے ہیں، گزشتہ 24 گھٹوں کے دوران 6،828 ٹیسٹ ہوئے، اس وقت پاکستان میں کورونا کے 29 مریضوں کی حالت نازک ہے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کوئی مریض نازک حالت کا شکار نہیں ہوا۔
اگر پاکستان میں کورونا ویکسینیشن کروانے والے افراد کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 301,954,054 افراد ویکسینیشن کروا چکے ہیں جن میں 139,628,133 نے پہلی جبکہ 132,278,468 نے مکمل ڈوز جبکہ 48,517,567 نے بوسٹر ڈوز لگوائی ہے۔
اسی طرح اگر صوبائی سطح پر کورونا کے اب تک کے کیسز کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ صوبہ سندھ میں 595,326 کیسز، کے پی میں 224,719، پنجاب میں 523,119، بلوچستان میں 36,025، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بالترتیب 44,334/12,084 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رجسٹرڈ مریض 139,618ہیں۔
ہمسایہ ملک چین میں آئے روز کورونا کیسز میں اضافہ تشویش ناک ہے لیکن یہ بات اُمید دلاتی ہے کہ اب اس وبا کے شکار افراد کی شرح اموات چین میں نہ ہونے کے برابر ہے تاہم سردی کا موسم پاکستان میں بھی اس عالمی وبا کے ممکنہ پھیلاؤ کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں صحت و سماج و نفسیات کے ماہرین سے گفتگو کی گئی جنہوں نے متفقہ طور پر عوام کو یہ پیغآم دیا کہ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے ویکسین بھی لگوائیں، کسی بھی بخار کی شکایت پر دو سے تین دن آرام نہ آنے کی صورت میں متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کریں، اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں جبکہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کُل بجٹ کا کم از کم 5 فیصد صحت پر لگائے، سرکاری ہسپتالوں میں ناپید سہولیات فراہم کی جائیں اور نجی شعبہ کے لئے حکمت عملی تریب دی جائے۔ علاوہ ازیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے مشترکہ ضکمت عملی وضع کی جائے۔
صدر ایسویسی ایشن آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل آرگنائزیشنز ملک سجاد انور کا کہنا تھا کہ ہماری حکومتوں کی ترجیح بجٹ میں کبھی بھی صحت اور تعلیم نہیں رہے حالانکہ صحت ہر فرد کا بنیادی حق ہے ساتھ ہی ساتھ علاج کی سہولیات کی فراہمی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، پوری دنیا میں عوام کو ہیلتھ انشورنس دی جاتی ہے، پریمیئر فری ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں سرکاری ہسپتالوں میں بدقسمتی سے اگر ایک مشین بھی خراب ہو جائے تو مریضوں کو نجی اداروں کے منہ مانگے داموں ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں، ایک ایک مشین چھ چھ ماہ تک خراب رہتی ہے مشین پر کام کرنے والا موجود عملہ بھی بے بس ہوتا ہے دوسری جانب معمولی بلڈ ٹیسٹ کے لئے بھی نجی اداروں کے اپنے اپنے نرخ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے نجی اداروں کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے ایک معیاری نرخ لسٹ بنانا وقت کی ضرورت ہے، پرائیویٹ سیکٹر پر گورنمنٹ کا ہولڈ نہ ہونا اور گورنمنٹ اداروں میں عدم دلچسپی کی وجہ سے متوسط اور غریب مریضوں کو جو مسائل ہیں ہم آئے روز دیکھتے ہیں جبکہ کووڈ 19 جو پچھلی دو لہروں کے دوران ہمارے ہیلتھ انفراسٹرکچر کو کھلا چیلنج دے کر گئی ہے وہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے کووڈ 19 ویکسین کو فری کر کے ایک احسن قدم اُ ٹھایا جبکہ کووڈ 19 ٹیسٹ کے ریٹ فکس کر کے نجی اداروں کو اس کا پابند بنایا، اس سے قبل نجی اداروں نے 5 سے 14 ہزار ایک ایک ٹیسٹ پر فیس لی لیکن حکومت کی جانب سے واضح ہدایات کی وجہ سے تمام اداروں میں ریٹ فکس ہوا، اسی طرح نجی اداروں کو ایک ہی سٹینڈرڈ کے تحت لانے کے لئے موجودہ حکومت حکمت عملی اپنائے تاکہ دکھی انسانیت کی خدمت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت باہمی رضآمندی اور خوشگوار ماحول میں ہو سکے۔
ملک سجاد انور کا کہنا تھا کہ ماضی کے تجربات یاد رکھنے بہت ضروری ہیں، کووڈ 19 نے معمول کی ورزش کرنے والے نوجوانوں، کھلاڑیوں، صحت مند دل جگر رکھنے والے افراد پر نہ ہونے کے برابر اثر کیا تھا جبکہ بزرگ دائمی بیماریوں کے شکار افراد جن کے جگر پہلے سے کمزور تھے اعصابی طور پر کمزور افراد پر زیادہ اثرانداز ہوا اس لئے ہمیں صحت مند عادات اپنانے، کسی بھی بیماری کا بروقت علاج کروانے اور اپنے معالج سے رابطہ رکھنے کی عادت اپنانا ہوں گی جبکہ صحت مند طرز زندگی خود بھی اپنائیں اور اپنے گھر والوں کو بھی پابند کریں، علاوہ ازیں حکومت پولیو مہم کی طرز پر کووڈ ویکسینشن اور شعوری مہم گھر گھر تک پہنچانے کا اہتمام کرے جبکہ عوام بھی ویکسینیشن سے متعلقہ وہم ابہام ترک کریں اس سے نہ تو عمر کم ہوتی ہے نہ ہی کوئی چپ لگتی ہے نہ ہی بچوں کی پیدائش کا نظام متاثر ہوتا ہے، اس کا نقصان کوئی نہیں بلکہ کوروونا سے بچاؤ ممکن ہے۔
ملک سجاد انور نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اس وقت تک دیئے جانے والے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 13 کروڑ 22 لاکھ 78 ہزار 4 سو اڑسٹھ لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے جبکہ ہمارے یہاں 22 کروڑ کی کُل آبادی ہے تو حکومت کو آبادی کے اس حصے کو بھی اپروچ کرنا ہو گا جو اب تک ویکسینیشن نہیں لگوا سکے جن کا تعلق زیادہ تر دیہاتوں سے ہے جبکہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بوسٹر ڈوز ابھی تک صرف 4 کروڑ 85 لاکھ لوگوں کو لگی ہے؛ کووڈ 19 کے ممکنہ خطرات سے نپٹنے کے لئے بوسٹر ڈوز لگوانے اور پہلے اور دوسری ڈوز کی شعوری بیداری بہت ضروری ہے، حکوتی اعدادوشمار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ماضی کی حکومت کے جانے کے بعد موجودہ حکومت کی توجہ کم ہو رہی ہے، کورونا کے خطرے کو سنجیدگی سے لینا ہو گا، ہمارا ملک ایک بار پھر سے خدانخواستہ لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ صحت عوام کا بنیادی حق ہے، کم از کم کُل بجٹ کا 5 فیصد مختص کیا جائے، عوام بھی کورونا کے حوالے سے ہر قسم کے انتہائی رویے سے گریز کریں؛ این 95 ماسک بھی وہی کام کرتا ہے جو عام 10، 15 روپے والا ماسک کرتا ہے، این 95 جو ڈاکٹر جو کووڈ کیسز دیکھ رہے تھے ان کو لگانے کا کہا گیا تھا جنرل پبلک کے لئے جنرل ایس او پیز پر عمل کرنا ضروری ہے جن میں عام ماسک، فاصلہ، ہاتھ صاف رکھنا اور کسی بھی علامت کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا شامل ہے، عوام سے اپیل ہے کہ اپنا بھی خیال رکھیں اور گھر والوں کا بھی، ویکسین لگوائیں کسی ایمرجنسی کی صورتحال سے قبل تاکہ کووڈ 19 کی تیسری لہر پاکستان میں خدانخواستہ ایک بار پھر مسئلہ نہ بنے۔
ماہر نفسیات صدف تفسیر کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے دوران اس کے نفسیاتی اثرات جو دیکھنے میں آئے ان میں کھانے پینے، نیند کا شیڈول متاثر ہونا، ورک فرام ہوم کی وجہ سے دفتر جانا اور وہاں کے ماحول میں ڈپریشن محسوس کرنا، کام کی کارکردگی کم ہونا، غصہ آنا، رات جاگنے صبح سونے کی بُری عادات کی وجہ سے فرسسٹریشن ڈپریشن سمیت بُخار ہونے پر مر جانے کا خوف، معمولی باتوں پر جھنجلاہٹ، بار بار ہاتھ دھونے کو ایک جانب بوجھ سمجھنا دوسری جانب وہم لگنا جبکہ جو پہلے ہی سے بار بار ہاتھ دھونے کی بیماری (او سی ڈی) کے مریض تھے ان کے خوف مذید بڑھ گئے۔
صدف تفسیر کے مطابق ہم گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنی نیند، خواراک، کام ، ورزش اور پُراُمید سوچ کو برقرار رکھ سکتے ہیں؛ گھر کے کام بھی کریں اپنے گھر والوں کی روٹین بھی ٹھیک کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے دوران سکرین اڈکشن میں اضافہ ہوا، لوگوں میں آنکھوں کے مسائل اور سردرد زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ لیپ ٹاپ اور موبائل فونز کا استعمال کووڈ 19 میں بڑھ گیا جبکہ مسلسل لیپ ٹاپ اور موبائل کے استعمال سے جسم کی ساخت پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں جبکہ کام پر یک سوئی کم ہو رہی ہے، اہداف مکمل نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔
صدف تفسیر کا کہنا تھا کہ کووڈ کی تیسری لہر ممکنہ طور پر نفسیاتی اثرات کا خطرہ بھی پیدا کر رہی ہے جبکہ ہمارے یہاں نفسیاتی مسائل کو اہمیت نہیں دی جاتی؛ معالج سے رجوع کم ہی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں لہذا ہمارا یہی پیغام ہے کہ اپنی زندگی کو صحت مند معمول پر لائیں، کووڈ 19 سے بچاؤ کی ہر ممکن کوشش کو عادت کا حصہ بنائیں، روٹین کا خیال رکھیں، وقت پر کھانا کھائیں، نیند پوری کریں، ماسک کا استعمال، فاصلہ رکھنا اور کسی بھی علامت اور بُخار جلد ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں معالج سے رجوع کریں کورونا، ویکسین سے متعلق اوہام اور افواہوں سے گریز کریں۔
ڈاکٹر عمران زیب کا کہنا تھا کہ چین میں کووڈ 19 کے اعداوشمار پر نظر دوڑائیں تو پچھلے تین ماہ ہی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ 25 سے 30 ہزار نئے کیسز آئے ہیں جبکہ شرح موات نہیں ہے لیکن یہ ہمارے لئے اور پوری دُنیا کے لئے خظرے کی گھنٹی ہے کیونکہ کووڈ 19 بھی چین ہی سے شروع ہوا تھا ایسے میں کووڈ کی نئی لہر سے ملک کو بچانے کے بین الاقوامی رفت آمد پر نظر رکھنی ہو گی، ہر آنے والے کا ٹیسٹ جلد از جلد شروع کرتے ہوئے کسی بھی علامت پر پہلے فرنطینہ کروایا جائے تاکہ ہم اس بیماری کو ہونے ہی نہ دیں جس کے لئے سنجیدہ بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کووڈ کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہیلتھ سروسز پروائڈر کے تجربات یاد کریں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ کووڈ 19 ایسی وبا ہے جو علامات بدل بدل کر آتی ہے، اس کی کوئی ایک علامت نہیں؛ کھانسی نزلہ گلہ خراب پیٹ خراب سمیت بُخار کو جلد آرام نہ آنا، کسی بھی صورت میں بروقت ڈاکٹر سے رجوع کر کے اس بیماری کا علاج اور خود بھی صحت مند ہونا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے۔
ڈاکٹر عمران زیب نے عوام پر زور دیا کہ اسے ہلکا نہ لیں، فوری ٹیسٹ کروائیں، ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کووڈ 19 کی تیسری لہر سے بچاؤ کے لئے عملی اقدامات اُٹھائے جائیں، ویکسینیشن کی سہولت 100 فیصد عوام تک ممکن بنائی جائے، ماضی میں فون پیغامات سمیت شعوری بیداری کے پروگرام زبردست تھے ایسے ہی موجودہ حکومت حکمت عملی اپنائے کیونکہ سردیاں آ چکی ہیں کووڈ 19 کی وبا کا تیسری لہر کی صورت میں ممکنہ خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے عوام کو بھی بے فکری کی عادت ختم کرنی ہو گی، ماسک کا اسعتمال ایس او پیز پر عمل کرنے کی عادت اپنائیں جبکہ اس حوالے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا اصول اپنایا جائے، ہر فرد کو ذاتی ذمہ داری کا ثبوت ویکسین لگوا کر اور ایس او پیز پر عمل کر کے دینا ہو گا۔
سینئر سماجی رہنما سیدہ زہرہ سجاد زیدی کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی ممکنہ تیسری لہر پر بروقت بات کرنا بہت اہم ہے؛ جیسے پہلی کورونا کی لہر بھی بہت شدید تھی وہ بھی ہمسایہ ملک ہی سے آئی تھی ہمیں ہر وقت اس وبا کے حوالے سے عالمی منظر نامہ پر نظر رکھنی ہو گی، سردیاں شروع ہیں پہلے ہمارے ملک میں اب تک کی اموات کے اعدادو شمار بھی ہمارے سامنے ہیں جبکہ پُرامید بات یہ ہے کہ عوام ویکسین لگوا بھی رہے ہیں اور صحت پر توجہ دیتے ہیں جو ہماری حکومت کی بہترین شعوری بیداری اور فری ویکسینیشن کی وجہ سے ممکن ہوا لیکن ہمین یاد ہے کہ کورونا کی وجہ سے ہم کتنی ہی ہستیوں سے محروم ہو گئے ہیں جو اس کی لپیٹ میں آئے، متاثر ہوئے کیونکہ ہمیں اس عالمی وبا کے علاج اور تشخیص، بچاؤ کی تدابیر کا علم اور تجربہ نہ تھا، کوئی طریقہ واضح نہیں تھا جس کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا جبکہ ماضی کی دو لہروں کے تجربات ہمیں بتا بھی گئے ہیں اور سکھا بھی گئے ہیں کہ ہم نے اس وبا سے بچنے کے لئے چوکنا کیسے رہنا ہے یعنی انفرادی سطح پر ایس او پیز پر عمل کرنا اور ویکسین لگوانا، کسی بھی علامت کی صورت میں ٹیسٹ اور علاج ممکن بنانا، اس کے ساتھ ساتھ افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے حکومتی پیغامات کو اپنائیں۔ مصدقہ ڈیٹا اور خبروں پر یقین کریں وہم نہ لگائیں۔
زہرہ سجاد زیدی کے مطابق تعلیمی اداروں، دفاتر اور کام کی جگہوں کتے لئے حکومت کو بروقت ایس او پیز وضع کرنے کے لئے کورونا پھیلنے سے قبل ہی اقدامات اُٹھانے ہوں گے، وبا کے پھلینے میں کوئی تخصیص نہین بلاامتیاز تمام عوام بشمول دیہی و شہری علاقوں تک ویکیسین فراہم کی جائے، پاکستان ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں صحت کی صورتحال ویسے ہی سوالیہ نشان ہے؛ دیہی علاقوں میں برائے نام ہسپتال ہیں، دستیاب صحت کے مراکز میں سہولیات کا فقدان ہے، غریب اور متوسط طبقہ علاج کروانے سے قاصر رہتا ہے جبکہ تیزی سے بڑھتی آبادی کے چیلنجز بتاتے ہیں کہ ابھی کتنے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، ”ہم نے حالیہ سیلاب میں بھی دیکھا کہ ابھی تک سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں جن کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، وہاں صحت کی سہولیات کے اقدامات ناکافی نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔”
زہرہ سجاد زیدی کا کہنا تھا کہ ہمارے مخیر حضرات اور ادارے بھی کووڈ 19 کی تیسری لہر سے بچاؤ کی شعوری بیداری کریں، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ مربوط بنیادوں پر کی جائے، ”میں سمجھتی ہوں کہ محکمہ صحت کو اپنے اداروں میں سہولیات کی کمی کا جائزہ لینا ہو گا، فنڈز کی کمی پوری کرنی ہو گی، لوگوں کو عالمی وبا سے بچانے کے 100 فیصد اہداف پورے کرنے ہوں گے۔”
زہرہ زیدی کے مطابق سندھ، کے پی، پنجاب، گلگت بلتستان یعنی ملک بھر میں جہاں جہاں شرح غربت زیادہ ہے وہاں صحت کی سہولیات بھی ناپید ہیں؛ حکومت کو اقدامات اُٹھانے ہوں گے جس کے لئے کُل بجٹ کا کم از کم 5 فیصد صحت پر لگانا ہو گا، جبکہ کوروناسے بچاؤ کی شعوری مہم کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ضروری ہے، آفت سے بچنے کے لئے باقاعدہ فنڈ مختص کئے جائیں، محکمہ صحت بنیادی سطح سے لے کر ضلعی صوبائی ملکی سطح پر اسٹیک ہولڈرز کی باقاعدہ مشاورت شروع کرے، رضاکارانہ طور پر سماجی ادرے آگہی مہم کا آغاز کریں، سردی آ رہی ہے کورونا پھیلنے کا خطرہ ہے، کورونا کا لفظ سنتے ہی دل دہل جاتا ہے، تمام سماجی ادارے واش ایشوز پر رضاکارانہ بات کرتے ہوئے ہاتھ دھونے، صابن کے استعمال، ہینڈ سینیٹائزیشن، ویکسینیش کی شعوری بیداری شروع کریں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر فضلِ ربی نے بتایا کہ کووڈ 19 نے ہیلتھ پرووائڈرز کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا جس کے باوجود ہمارے ساتھیوں نے اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی نہیں برتی بلکہ جہادی بنیادوں پر کام کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ وبا سے بچاؤ کی شعوری بیداری سے ہم آنے والے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ہمارا اپنی قوم کو یہی پیغام ہے کہ ایس او پیز پر عمل کرنے پر کوفت ظاہر نہ کریں بلکہ ان کی عادت ڈالیں تاکہ ہم اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت کے خود بھی ضامن بنیں جبکہ ویکسینیشن کا عمل تیز تر کرنا ضروری ہے۔
سماجی رہنما طاہرہ نجم کے مطابق دو قسم کے انتہائی رویوں کی وجہ سے ماضی میں نہ صرف ہماری صحت بلکہ ہمارے آپس کے معاملات بھی متاثر ہوئے ہیں؛ جہاں یہ کہا جاتا رہا کہ کورونا کہاں ہے کہیں بھی نہیں وہاں بچاؤ کی احتیاطی تدابہر نہ اپنائی گئیں اور ایک ایک خاندان کے چار چار افراد اس وبا کا شکار ہوئے جبکہ ایک جانب ایسا بھی ہوا کہ کورونا کے مریضوں اور گھرانوں کا ایسا بائیکاٹ کیا گیا کہ وہ انسانی ہمدردی تو درکنار سماجی تنہائی کا شکار ہو گئے، ابھی تک بھی ایسے مریض جن کو اپنے دوست احباب کی جانب سے سرد مہری کا سامنا ہوا وہ کھچے کھچے رہتے ہیں، ہمسایہ ملک چین میں کورونا کے بڑھتے کیسز، ایشیاء میں سردی کی لہر اور ممکنہ کورونا کا پھیلاؤ ہم آپ ذاتی سطح پر ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے سماجی خدمت کر سکتے ہیں، صرف ماسک کا استعمال اور فاصلہ ہمیں مستقبل میں خدانخواستہ لاک ڈاؤن جیسی اذیت سے بچا سکتا ہے، یہ یاد رکھیں کہ افواہ پر کان نہیں دھرنے، حکومتی مصدقہ اعدادوشمار اور مصدقہ نشریاتی اداروں کی معلومات کو ملحوظ خاطر رکھیں، حکومت کی جانب سے بتائے جانے والی احتیاطی تدابیر اپنائیں، یقین جانیں! اگر ہم من حیث القوم کورونا سے بچاؤ کے لئے اپنی اپنی سطح پر ایس او پیز پر عمل کریں تو پاکستان میں اس وبا کا خاتمہ ممکن ہے، اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیں، کورونا کے ممکنہ حملوں کو سنجیدہ لیں۔
محکمہ صحت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت کورونا کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے سنجیدہ ہے؛ محکمہ صحت روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے بہت جلد نئی حکمت عملی کا اعلان بھی کیا جائے گا تاہم کورونا پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے، مستقبل میں بھی اُمید ہے عوام ہماری ویب سائٹ سے باخبر رہیں اور ایس او پیز پر عمل کریں، قریبی سرکاری ہسپتال سے مفت ویکسین لگوائیں، کورونا پر زیرو ٹالرنس دکھائیں۔
https://covid.gov.pk/