سیلاب 2022: ہمارا ووٹ نہیں اس لئے حکومت توجہ نہیں دے رہی۔ افغان مہاجرین
نبی جان اورکزئی
رواں سال اگست میں آنے والے سیلاب سے جہاں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آیا اور مختلف علاقوں اور شعبہ جات ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ متاثر ہوئے وہیں پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں مقیم افغان پناہ گزین بھی اس کی زد میں آئے جن میں سے بیشتر لوگ آج، تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی خیموں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہی افغان پناہ گزین میں نوشہرہ کے علاقے کیمپ کورونہ میں آباد افغان ماجرین بھی شامل ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں کیمپ کورونہ کے رہائشی سرور نے بتایا کہ علاقے میں تقریباً 30 سے 40 کچے مکانات تھے جو سارے سیلاب بہا کر لے گیا، ان کا سب کچھ سیلاب کے بے رحم ریلوں کی نذر ہو گیا اور وہ تب سے خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے قبل وہ محنت مزدوری کرتے تھے اور کسی نا کسی طرح ان کا گزارہ چل رہا تھا لیکن سیلاب آنے اور اس میں مکان بہہ جانےکے بعد اراضی کے مالک نے انہیں وہاں مزید رہنے کی اجازت نہیں دی، (بلکہ اس میں پلاٹنگ کر کے) وہ اپنی زمین بیچ رہا ہے، دوبارہ گھر تعمیر کرنے کی ان کی بساط نہیں ہے، اپنوں پراوں نے جو جگہ دی ہے اس میں سب خیمے لگا کر رہ رہے ہیں۔
سرور کاکا کے مطابق یہ خیمے بھی انہیں اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے دیئے ہیں جبکہ حکومت وعدوں پے وعدے کر رہی ہے اور (ان کی بحالی کیلئے) عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کیمپ کورونہ میں مقیم افغانستان کے صوبہ کنڑ سے تعلق رکھنے والے عبدالولی نے بتایا کہ سیلاب سے قبل ان کا یہاں ایک کچا مکان تھا، دیہاڑی مزدوری کرتے تھے اور اچھا خاصا گزارہ چل رہا تھا لیکن پھر سیلاب آیا اور ان کا سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا، ”اب ہمیں یہاں رہنے بھی نہیں دیا جا رہا اور ان خیموں میں پڑے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔”
عبدالولی کے مطابق انہیں صرف ایک خیمہ ملا ہے جس میں ان کا دس افراد پر مشتمل خاندان پناہ لئے ہوئے ہے۔
درپیش مسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے بعد ان کا روزگار ختم ہو کر رہ گیا ہے، دوسرے سردیوں کی وجہ سے بچے زکام وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث انہیں پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
عبدالولی خان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ ہر ممکن امداد کرے، ان کے لئے مکانات ازسرنو تعمیر کرے تاکہ انکے بچوں کو ایک چھت میسر آ سکے۔
کیمپ کورونہ کے رہائشی افغان پناہ گزینوں کے مطابق ان کی زندگی اب خاصی دشوار ہو گئی ہے، حکومت نے بھی ان کے ساتھ کچھ خاص تعاون نہیں کیا، وہ گلہ کرتے ہیں کہ چونکہ ان کا ووٹ نہیں ہے اس لئے حکومت بھی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق خیبر پختون خوا میں بارشوں اور سیلاب سے 193 افراد جاں بحق اور 251 زخمی ہوئے، سیلاب سے صوبے میں 19748 گھروں ہوٹلوں اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچا، سیلاب سے مکمل تباہ گھر اور عمارتوں کی تعداد 10761 جبکہ جزوی طور پر 8987 گھر/عمارتیں شامل تھیں۔
پی ڈی ایم اے نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ سیلاب سے 127 سکولز عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، اور 959 جانور بھی ہلاک ہوئے۔
خیال رہے کہ رواں سال پاکستانی معیشت کو سیلاب کی وجہ سے تقریباً دس بلین ڈالرز کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، بارشوں کی وجہ سے تقریباً 1200 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، 1700 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ 55 لاکھ گھر بہہ چکے ہیں۔
پاکستان کی فیڈرل منسٹر فار کلائمیٹ چینج شیریں رحمان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ”بہت سی تحصلیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے وہ سمندر کا حصہ ہوں، ہمارے ہیلی کاپٹر کو راشن پھینکنے کے لیے خشک جگہ نہیں مل رہی ہے، پاکستان میں تقریباً 4 کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور پہلی بار نیوی سے بھی کام لیا گیا ہے۔”