گھر بیٹھے کمائی کے مواقع اور میرا تجربہ!
حمیرا علیم
آج کل ہر کوئی معاشی طور پر پریشان ہے؛ گھر کے اخراجات، بلز، بچوں کی فی، وینز کا کرایہ، بائیک کار کا پٹرول اور غیرمتوقع خرچے جیسے بیماری، شادی، فوتگی اور دیگر تقریبات، ان سب کے لیے وسائل کم پڑنے لگے ہیں۔
چند سال پہلے ایک خاندان اگر 50 ہزار میں گزارا کر لیتا تھا تو اب وہی خاندان ایک لاکھ میں بھی بمشکل مہینہ پورا کر پاتا ہے؛ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہر کوئی پریشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد حضرات دو دو جابز کر رہے ہیں تو خواتین بھی کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ خواتین کے لیے گھر بیٹھے بہت سے ایسے کام ہیں جن کے ذریعے وہ کما سکتی ہیں جیسے کہ سلائی کڑھائی، ٹیوشن پڑھانا، فری لانسنگ، یو ٹیوب پر ولاگز ، بلاگنگ اور آن لائن سیلنگ وغیرہ۔
میں یہاں اپنا تجربہ شیئر کرنا چاہوں گی۔ میں نے پرائیویٹ اور گورنمنٹ دونوں سیکٹرز میں ہائی اسکول سے گریجویشن لیول تک پڑھایا۔ اور شادی کے بعد دوسرے صوبے میں شفٹ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ جاب سے ریزائن کر دیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میاں کی جاب میں بہت اچھا گزر بسر ہو رہا ہے۔ بچے بڑے ہو گئے تو کزنز اور بھائی کے کہنے پر یوٹیوب چینل بنا لیا جس پر مختلف ایجوکیشنل اور کوکنگ کی ویڈیوز اپ لوڈ کرنی شروع کر دیں جن پر رسپانس شروع میں تو بس 5-6 ویوز ہی ملے لیکن آخری ویڈیو پر 350 ویوز مل گئے۔ پھر طبیعیت کی خرابی کی وجہ سے میں نے ویڈیوز بنانا چھوڑ دیں۔
اس تجربے سے جو چیز میں نے اخذ کی وہ یہ ہے کہ یوٹیوب چینل کی کامیابی صرف اور صرف قسمت پر منحصر ہے۔ اگرچہ سب کچھ ہی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے مگر یوٹیوب چینل ہر کسی کا نہیں چلتا۔ کئی ایسے کوکنگ چینلز ہیں جن کی شروعات ایک گاؤں کے کچے گھر سے روزمرہ کی روٹین کی ویڈیوز سے ہوئی۔ کچھ خواتین و حضرات نے مٹی کے چولہوں پر ساگ اور تندور میں روٹی سے آغاز کیا اور آج وہ ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں۔ ان کے فالورز کی تعداد ملینز میں ہے۔
کچھ لڑکے لڑکیاں مزاحیہ ویڈیوز بناتے ہیں، کچھ ڈانس اور سنگنگ کی لیکن ہر کوئی نہ تو لاکھوں فالورز حاصل کر پاتا ہے نہ ہی کما پاتا ہے۔ میں نے ایک ایسی ویڈیو دیکھی جو توے پر سادہ روٹی بنانے کی تھی اور اس کے 8 ملین ویوز تھے۔ جبکہ دوسرے کئی لوگوں نے مختلف قسم کی روٹیاں اور نان بنانے کی ویڈیوز بنائیں مگر 8-10 سے زیادہ ویوز نہیں ملے۔
پھر ایک فیملی فرینڈ کے مشورے پر آن لائن بیڈ شیٹس اور کپڑے سیل کرنے شروع کیے۔ فیس بک پیج اور واٹس ایپ پر گروپ بنائے ان پر روز پراڈکٹس وِد پرائس پوسٹ کیں۔ زیادہ تر چیزیں تو بہن بھائیوں نے ہی خریدیں۔ دوسرے کسٹمرز پرائس ضرور پوچھتے تھے چیزوں کی تفصیلات پوچھ کر دل پشوری کر کے خاموش ہو جاتے تھے۔ دو تین لوگوں نے اندرون سندھ اور بلوچستان کے لیے آرڈر دیا جہاں پوسٹ آفس میں پارسل کرنا تھا میں نے ہاف پیمنٹ پہلے دینے کا کہا تو فرمانے لگے: "ہمیں کیا پتہ آپ چیزیں بھیجیں نہ بھیجیں اس لیے ہم تو بعد میں ہی پے کریں گے۔” میں نے جواباً کہا: "اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو میں کیسے اعتبار کر لوں کہ پارسل ریسیو کر کے آپ مجھے پیسے بھیج دیں گے۔” فرمانے لگے: "ہم ایسے نہیں ہیں بڑے معزز ہیں۔” یعنی کہ خدانخواستہ میرے تھانوں میں اشتہار لگے ہوئے تھے۔
کچھ خواتین نے واٹس ایپ ویڈیو کال پر آدھا گھنٹہ چیزیں کھلوا کھلوا کر چیک کیں جو کہ سب پانچ ہزار سے اوپر کی تھیں اینڈ پر فرمانے لگیں: "بازار میں یہی بیڈ شیٹ سیٹ 500 کا مل جاتا ہے آپ 500 کا دیں۔” میں نے عرض کی کہ وہیں سے خرید لیجئے پلیز! ہول سیلرز کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ تھا اس لیے کوالٹی چیک نہیں کر سکتی تھی۔ کچھ کسٹمرز نے بتایا کہ پیسے تو اچھی کوالٹی کے چارج کیے گئے تھے مگر چیز لو کوالٹی کی بھیجی گئی تھی لہذا اس کام کو بھی بند کر دیا۔
سلائی کڑھائی میں پیسہ تو ہے مگر خواتین کو ٹائم لگانا پڑتا ہے؛ استری اور سلائی مشین کا بل دینا پڑتا ہے۔ اور گھر میں سلائی کرنے والی خواتین کو کوئی بھی مناسب پیسے دینا پسند نہیں کرتا۔ اگر بازار میں بیٹھا ٹیلر سادہ سوٹ کی سلائی کے 700 سے 1000 لیتا ہے تو ان خواتین کو ڈیزائن والے سوٹ کے بھی 500 کوئی نہیں دیتا۔ اور اکثر خواتین باتیں بھی خوب سناتی ہیں اور ان 500 میں سے بھی کچھ کم کروا کر ہی دم لیتی ہیں۔ بہت کم خواتین ایسی ہیں جو گھر میں سلائی کرنے والی خواتین کو بھی اچھا پے کریں۔ ایسا ہی گھر پر ٹیوشن پڑھانے والی خواتین کو اتنا پے نہیں کیا جاتا جتنا کہ اکیڈمیز کو۔
رائٹنگ میں بھی یہی حال ہے کہ بیشتر اخبارات، رسائل اور سائٹس ایک پائی بھی نہیں دیتے۔ اور جو پے کرتے ہیں یا تو وہ اتنی قلیل رقم ہوتی ہے کہ کچھ نہیں بنتا یا پھر جو ادارے اچھا پے کرتے ہیں ان میں کوئی جان پہچان ہونی ضروری ہے ورنہ رائٹر کو کچھ نہیں ملتا۔ اور وہ اسی میں خوش ہو جاتا ہے کہ میری تحریر کہیں چھپ گئی ہے۔
آن لائن ٹییچنگ اور فری لانسنگ کے لیے بھی پہلے سائٹ پر رجسٹریشن ضروری ہے جس کی تگڑی قسم کی فی ہوتی ہے۔ اکثر سائٹس فی لے کر غائب ہو جاتی ہیں۔ اور جو کام دیتی ہیں وہ بھی کچھ فیصد چارج کرتی ہیں۔ فری لانسنگ کے لیے کورسز بھی ضروری ہیں لہذا ایک نارمل سی کم پڑھی لکھی گھریلو خاتون بنا ان کورسز کے آن لائن کام بھی نہیں کر سکتی۔
یہ کچھ فیلڈز ہیں جن کا مشاہدہ میں نے کیا ہے۔ باقی کا حال اللہ جانے۔ ان سب سے میں نے تو یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دوسرے کا منہ لال دیکھ کر اپنے منہ پر تھپڑ نہیں مارنے چاہئیں۔ اگرچہ مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور سفید پوش طبقے کے لیے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں لیکن اگر ہم قناعت پسندی کا مظاہرہ کریں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں اور اپنے وسائل کے مطابق اخراجات کرنے کی کوشش کریں تو یقین مانیے اللہ تعالٰی ہمیں ہر اس چیز سے نوازتا ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہو اور جس کی ہمیں واقعی ہی ضرورت ہو۔ لیکن اگر بہتر معیار زندگی کی دوڑ میں لگ جائیں تو کبھی بھی اپنا معیار حاصل نہیں کر پاتے۔