لائف سٹائلکالم

ٹریفک: سڑکوں پر آئیے اور لائیو شو دیکھیے بنا کسی ٹکٹ کے!

ارم رحمٰن

سارے جہان کا سست ترین انسان بھی سڑک پر اپنی سواری لے کر نکلتے ہی کسی تیزگام کا روپ دھار لیتا ہے اور یکایک اسے کہیں پہنچنے کی اتنی جلدی مچ جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ دیگر سواریوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیتا ہے۔

بے انتہا، بے ہنگم ٹریفک معاشرے میں فضائی آلودگی پھیلانے کے ساتھ صوتی آلودگی کا بھی سبب بن رہی ہے، چھوٹا یا بڑا شہر حتی کہ ہر قصبہ بھی اس ٹریفک کے نظام سے پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنے ہر مجبور ہو چکا ہے۔

Lane discipline کا کوئی پرسان حال نہیں، سڑکوں پر ٹریفک کا نظام بالکل ایسے ہے جیسے ہاکی کا میدان! کسی بھی طرح سے سواریوں کے اژدھام کو چیرتے ہوئے ادھر ادھر سے شارٹ کٹ ڈھونڈتے، فٹ پاتھ پر، کچی پکی جگہ پر حتیٰ کہ جہاں تھوڑا بہت سبزہ اگا ہوا ہے ہر پیڑ پودے کو روندتے ہوئے کسی طرح اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔

اب ان ماں کے لاڈلوں کو کون سمجھائے کہ اگر جلدی اٹھ کر منظم طریقے سے مقررہ جگہ پر پہنچنے کے اوقات کار کا لحاظ رکھ لیتے، وقت پر گھر سے نکلتے، پھر ایک مناسب رفتار سے اپنی بائیک، سائیکل، کار، بس چلاتے تو اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی کتنی آسانی ہوتی!

پھر وہ جگہیں جو پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہیں جنھیں عام زبان میں فٹ پاتھ کہتے ہیں، ان کی جگہ بھی گھیر کر ٹکراتے بچتے بچاتے اپنی بائیک اور سائیکل دوڑاتے نظر آتے ہیں۔

کیا پاکستان میں کوئی سڑک ایسی ہے جہاں ٹریفک چلنے کو محسوس کیا جا سکے کیونکہ ہر سڑک تو اکھاڑے کا روپ دھار چکی ہے۔ ایک دنگل کی طرح چلتی ہے کہ کوئی ہے ہم جیسا جو آگے نکل کر دکھائے، ساری چستی پھرتی اگر کہیں نکلتی ہے تو وہ ہے سڑک!

پاکستان کی 90 فیصد آبادی کو ٹریفک کا کوئی شعور ہے ہی نہیں۔ وارڈنز کی تعداد بڑھانے اور تنخواہوں میں اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ پیارے پاکستان میں ٹریفک کے حوالے سے کوئی مربوط اور منظم نظام متعارف ہی نہیں کروایا گیا؛ سڑکوں پر "سواری” چلانے کے لیے محض "سواری” کا ہونا لازم ہے۔

علاوہ ازیں ماں کی دعائیں، لیجیے سپرد خدا، بیٹا گاڑی چلا کے مصداق ٹریفک چل رہی ہے جو بچ گیا وہ مقدر کا سکندر اور جو نہ بچ سکا وہ شہید!

سڑکوں پر گاڑیوں کے بے ہنگم اور بے انتہا شور اور بدنظمی کی بڑی اور اہم وجہ کسی قسم کا خاص انتظام و انصرام نہیں کوئی عمر، گاڑی کی رفتار، کوئی وقت، لین اور لائسنس؛ چھوٹی وہیکل کے ساتھ بڑی بسں، مزدہ، لوڈررز، ٹرک، ٹرالیاں سب ایک ساتھ سڑک پر پہلوانوں کی طرح اترتے ہیں کہ "دیکھیے کتنا زور بازوئے قاتل میں ہے!”

موٹر بائیک پر ہیلمٹ، سائیڈ مرر، لائٹ، مڈ گارڈ، ہارن؛ اسی طرح بڑی سواریوں کے لیے سیٹ بیلٹ، رفتار، کوئی سائیڈ سڑک پر سائیکل سوار، چاند گاڑیوں کو لہرا کر چلانے والے اور پھر شدید جیالے نوجوان جو ٹریفک سے بھری سڑک کے بیچوں بیچ بالکل نڈر ہو کر "ون وہیلنگ” کرنا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ انھیں ایک لمحہ بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ان کا نڈر ہونا نہیں بلکہ جاہل ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ کس قدر بدنظمی پھیلتی ہے اور حادثات کی شرح اور پھر ان حادثات میں جاں بحق ہونے کی تعداد کثرت سے دیکھنے میں آتی ہے۔ ایک معمولی اور بےضرر کام سمجھ کر پورا کیے جانے والا شوق ہر سال سیکنڑوں گھروں کے چراغ گل کر جاتا ہے پیچھے صرف آہ و بکا اور گالیاں رہ جاتی ہیں۔

ٹریفک کے حادثات تو اپنی جگہ پیدل چلنے والوں کے لیے انتہائی مشکل عمل ہے کہ فٹ پاتھ ہر پرسکون چل سکیں سب سے بڑھ کر سڑک پار کرنا road cross کرنا اس قدر مشکل ہو جاتا ہے کہ بچے بوڑھے، خواتین اور معذور لوگ تو کافی کافی دیر کھڑے رہ جاتے ہیں کہ کب یہ ٹریفک کچھ تھمے اور ہم سڑک کے اس پار جائیں۔

ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا جو پاکستان کے ٹریفک کے نظام پر ہی لکھا گیا تھا کہ روڈ کراس کرنے والے نے سڑک کے دوسری طرف کھڑے شخص سے چیخ کر پوچھا "تم اس طرف کیسے پہنچے” تو جواب ملا، ”میں پیدا ہی اس طرف ہوا تھا۔”

وارڈنز بھی بڑے بڑے چوک میں کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے شاید حکومتی عہدے دار گزرتے ہیں ورنہ ٹریفک کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تو ہر جگہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر وارڈنز ہونے چاہئیں، ٹریفک کے درست اشارے، سڑک پار کرنے کے لیے زیبرا کراسنگ کا اہتمام ہونا چاہیے۔

ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہی اس قدر برا حال ہے کہ چھوٹے بچے جن کے پیر بھی صحیح طرح سے زمین پر نہیں لگتے موٹر بائیک چلاتے پھرتے ہیں اور رفتار بھی اتنی تیز کے خود نہ بھی کسی حادثے کا شکار ہوں تو اگلے کو کر دیں۔

لائسنس بھی آرام سے مل جاتا ہے اور لاہور، کراچی اور تمام بڑے شہروں میں تو ٹریفک لائسنس کم بینائی والوں کے ساتھ ساتھ ذہنی معذوروں کو بھی دے دیا جاتا ہے کیونکہ ٹریفک کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے واضح محسوس ہوتا ہے کہ "سواری سڑک پر لانے کے لیے نہ تو بینائی کی ضرورت ہے نہ کسی دانائی کی” تو پھر لیجیے اللہ کا نام اور کود پڑیں میدان میں، گھر سے وصیت کر کے نکلا کریں کہ میں چلا سفر پر اب بچ گیا تو شکر کیجیے ورنہ اہتمام قبر کیجیے
کیونکہ صبر اور تحمل نامی خوبی اور احساس تو اہل پاکستان کے لیے ایک گالی ہے، ایک ایسا عمل جو مضر صحت ہے،
انا، اکڑ، ضد، جلدی، تیزی، مقابلے بازی۔ طیش، تو تکرار، ان سارے مناظر سے لطف اندوز ہونا ہے تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر آئیے اور لائیو شو دیکھیے، بنا کسی ٹکٹ کے!

حکومت کی صرف ایک ہی غلطی ہے؛ وہ ہر غلطی کو نظر انداز کر دیتی ہے، کسی قسم کی سزا کا اہتمام اور روک تھام نہیں کرتی، قوانین تو سب موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا، عوام میں شعور بیداری کی مہم نہیں چلائی جاتی، جو اصول و ضوابط بچپن سے سکھانے لازمی ہیں ان پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی، اگر کچھ لوگ باشعور ہیں بھی تو وہ دوسروں کی بے احتیاطی اور جہالت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے تو باقی آدھا ایمان دوسروں کی بھلائی اور خیرخواہی ہے۔

ٹریفک حادثات کی سب سے اہم وجہ صرف لاعلمی اور عدم توجہ کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے اصولوں کی تعلیم کی کمی بلکہ نہ دیئے جانا ہے۔ اگرچہ ساری دنیا میں مروجہ قانون ہی پاکستان میں رائج ہے لیکن فرق صرف عمل کرنے اور کروانے کا ہے۔

ٹریفک میں بدنظمی سے وقت کا اشد زیاں ہوتا ہے؛ کتنے کتنے اہم کام ٹریفک جام کی نذر ہو جاتے ہیں، پھر پیٹرول اور ڈیزل جل جل کر ضائع ہوتا ہے۔ پرانی اور خراب گاڑیاں جن میں لائٹس ہیں نا بریکس درست، جن کی مرمت ہونا بہت ضروری ہے سڑکوں ہر رواں دواں ہیں۔ بےکار پرانے خراب سائلنسرز کا دھواں انسانی جسم کے ساتھ ساتھ چرند پرند اور پودوں کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے، پھر ہارن بجا بجا کر شور سے کانوں کے پردے پھٹنے کے ڈر کے ساتھ سماعت کی کمزوری بھی جنم لیتی ہے۔ شدید شور سے تو ذہنی استطاعت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کم ہونے لگتی ہے۔

الغرض یہ ایک نظام ٹھیک ہو جائے تو دیگر بہت سے مسائل سے خودبخود چھٹکارا مل جائے گا۔ بڑھتے ہوئے حادثات سے بچنا ہے تو ٹریفک کے قوانین پر سختی سے چلنا ہے۔

ایک لمحہ سوچیے کہ جس ملک میں کوئی قیمتی جان اس لیے اللہ کو پیاری ہو جائے کہ ایمبولینس ٹریفک جام میں پھنس گئی اور کسی نے رستہ نہیں دیا یا ٹریفک کی شدید بھیڑ میں رستہ نہیں مل سکا، بروقت مریض کو طبی امداد نہ مل سکی، اور وہ قیمتی جان آپ کے کسی اپنے کی ہو تو آپ پر کیا بیتے گی؟

جس لمحے یہ بات سمجھ آ گئی پھر یقیناً ہم بہتر راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button