پاکستان میں ایک سال میں تین فی صد سے بھی کم سگریٹ نوش تمباکونوشی ترک کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں
سدرا ایان
دنیا میں سب سے زیادہ بننے اور بکنے والی چیز سگریٹ ہے سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی ، وقت سے پہلے موت لانے والی اور پھر بھی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی چیز سگریٹ ہے۔ سگریٹ نوشی میں دن بدن اضافی ہوتا جا رہا ہے اگرچہ پہلے ایسے ہوتا تھا کہ صرف مرد ہی سگریٹ نوشی کرتے تھے اور سگریٹ نوشی انکی جینڈر سے جیسے جڑ گیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ہمیں بہت سی عورتیں بھی سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دکھائی دے دہی ہیں اور آجکل بہت سے کم عمر بچے بھی اکثر اوقات سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر چہ 2002 سے ایک آرڈنینس شروع ہوا تھا جسکے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کا سگریٹ فروخت کرنا جرم ہے لیکن پھر بھی اکثر ہمیں بچے دکھائی دیتے ہیں جو سگریٹ فروخت کرنے میں لگے ہیں، کچھ بچے خود سگریٹ نوشی کرتے ہیں جبکہ کچھ کو انکے بڑے پیسے دے کر سیگریٹ لانے کے لیے بھیجتے ہیں۔
گزشتہ روز مردان میں ایک آگاہی سیشن منعقد کیا گیا جس میں
آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشیٹیو (اے آر آئی) کو مدعو کیا گیا، اس سیشن میں پشاور، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ، اور مردان کی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ سیشن میں پاکستان میں تمباکونوشی کی صورت حال اور کم نقصان دہ تمباکونوشی کا تصور کا جائزہ لیا گیا۔
اے آر آئی نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ نوے لاکھ تمباکونوش ہیں۔ کچھ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں تین کروڑ دس لاکھ افراد تمباکونوشی کرتے ہیں۔ تمباکونوشی کرنے والوں کی اس کثیر تعداد کے ساتھ پاکستان کو جلنے والی سگریٹ نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تمباکونوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اموات پر سال 2019 میں 3.85 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ یہ ملک کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد بنتا ہے۔
کم نقصان دہ تمباکونوشی کا تصور (ٹوبیکو ہارم ریڈکشن) کارآمد ہے کیوں کہ اس تصور کے تحت استعمال ہونے والی مصنوعات میں زہریلے مادے نہیں ہوتے جبکہ تمباکونوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا تمام تر تعلق سگریٹ کے دھوئیں میں شامل ٹار سمیت دیگر کیمیائی مادوں سے ہوتا ہے۔ اگر تمباکونوش سگریٹ کے ایسے متبادل استعمال کریں جس میں سگریٹ کا جلنا شامل نہ ہو اور صرف نکوٹین فراہم کرتے ہوں تو وہ تمباکونوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔
شرکاء کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں تمباکونوشی کے خاتمے کی کوششوں میں سگریٹ نوشوں کی آراء کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان میں تمباکونوشی ترک کرنے کے لیے سموکر ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔ تمباکونوشی ترک کرنا سگریٹ نوشوں کے ہی سر ہے۔ اگر وہ تمباکونوشی ترک کرنا چاہیں تو وہ یہ نہیں جانتے کہ انہیں اس کے لیے مدد کہاں سے ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک سال میں تین فی صد سے بھی کم سگریٹ نوش تمباکونوشی ترک کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ اگر حکومت تمباکونوشی سے بچاؤ کی مؤثر سہولیات کی آسان اور سستے داموں فراہمی کے ساتھ ساتھ کم نقصان دہ تمباکونوشی کے تصور کو انسداد تمباکونوشی کی قومی پالیسی کا حصہ بنائے تو پاکستان کو 2030 سے بھی پہلے تمباکو سے پاک بنانا ممکن ہے۔ انہوں نے تمباکونوشی سے بچاؤ میں سگریٹ نوشوں کی مدد اور اس سلسلے میں طبی امداد کے بہتر استعمال کے لئے طبی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے اور کم نقصان دہ مصنوعات کےلیے قانون سازی کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ تمباکو سے پاک پاکستان بنانے کےلیے ضروری ہے کہ سگریٹ نوشوں کو بھی تمباکونوشی کے خاتمے کی کوششوں کا حصہ بنایا جائے۔ تمباکونوشی کے خاتمےکی کوششوں میں ان کی شمولیت سے پالیسی سطح پر یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ انہیں سگریٹ نوشی ترک کرنے یا متبادل مصنوعات پر جانے کےلیے کس قسم کی مدد درکار ہے۔ تمباکونوشی سے بچاؤ کے لئے سگریٹ نوشوں کی ضروریات اور اس سلسلے میں ان کی آراء کو ایف سی ٹی سی کے آرٹیکل 14 کے تحت بہت اہمیت حاصل ہے لہذا حکومتوں کو تمباکونوشی کے خاتمے کی کوششوں میں سگریٹ نوشوں کی ضروریات اور ان کی آراء کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔
اے آر آئی تمباکونوشی کا فوری خاتمہ چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے پاکستان الائنس فار نکوٹین اینڈ ٹوبیکو ہارم ریڈکشن (پینتھر) کا قیام عمل میں لایا ہے۔ یہ الائنس پاکستان میں تمباکونوشی کے خاتمے کی کوششوں اور اس سلسلے میں ایف سی ٹی سی کے آرٹیکل 14 کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ یہ تمباکونوشی کے خاتمے کے لیے نئی اور جدید تحقیق کے حق میں آواز بلند کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ خواہ وہ نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی (این آر ٹی) یا کم نقصان دہ تمباکونوشی کی صورت میں ہو لیکن یہ چیز تب ہی ہمارے معاشرے اور ملک سے ختم ہو سکتی ہے جب ہم اپنے گھر سے شروعات کرکے خود بھی سگریٹ نوشی ترک کریں اور اپنے بچوں کو بھی سگریٹ سے دور ہی رکھیں ، ہمارے بڑے چھوٹوں کے سامنے ہی سگریٹ نوشی کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ بچے بھی سگریٹ نوشی کے عادی ہو جائے ، بچوں کو سگریٹ لینے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے لیکن انھیں سگریٹ پینے سے منع کیا جاتا ہے ، بات یہ نہیں کہ اگر ہم انھیں منع کرینگے تو وہ سگریٹ سے دور رہیں گے ، ہماری باتوں سے انکی ذہن سازی نہیں ہوتی بلکہ ہم جو انکے سامنے کرتے ہیں اس سے انکی ذہن سازی ہوتی ہے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو سگریٹ یا ان جیسے دوسرے نشوں سے دور رکھیں تو پہلے ہمیں خود دور ہونا ہوگا۔