خواتین ہی نہیں مرد بھی ہراس ہوتے ہیں!
سدرہ ایان
لفظ ہراسمنٹ جہاں بھی سننے کو ملے وہاں ڈائرکٹلی مرد کا خاتون کو تنگ کرنے کا عمل ذہن میں آ جاتا ہے حالانکہ ہراسمنٹ کا مطلب صرف کسی مرد کا عورت کو تنگ کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ کسی بھی انسان کی کوئی ایسی بات یا حرکت جس سے دوسرے انسان کو تکلیف ہو ہراسمنٹ کہلاتی ہے۔ اب وہ دو مرد بھی ہو سکتے ہیں، دو عورتیں بھی ہو سکتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کو ٹارچر کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔
ہراسمنٹ ایک ایسا عمل ہے جو اپنے ہی گھر سے شروع ہو کر ورکنگ پلیس تک ہر جگہ ہوتا ہے۔ جس طرح اکثر خواتین ہراسمنٹ کا شکا رہتی ہیں بالکل اسی طرح مرد بھی ہراس ہوتے ہیں۔
کچھ ادارے ایسے ہیں جنھوں نے اپنے ورکرز کے لیے ہراسمنٹ کمیٹی بنائی ہوئی ہوتی ہیں جہاں وہ اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو معلومات نہیں ہوتیں کہ ہراسمنٹ کیا ہے، ہراسمنٹ کمیٹی کیا ہے اور شکایت کیسے اور کس کو درج کروانے ہیں؟
پچھلے آگاہی سیشنز کی طرح 19 نومبر کو ہراسمنٹ کمیٹی کے متعلق آگاہی کے لیے بھی ایک سیشن رکھا گیا جس میں عالیہ نواب صاحبہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا؛ عالیہ نواب صاحبہ پچھلے سات آٹھ سال سے بحیثیت چیئرپرسن کمشین آن دی سٹیٹس آف ویمن مردان کام کر رہی ہیں، انھوں نے ہراسمنٹ اور ہراسمنٹ کمیٹی کے متعلق بہت ہی معلوماتی سیشن لیا۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ قانون ہے لیکن نہ تو اس پر عمل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے، جیسے خواتین کو ہراساں کرنا ایک جرم ہے لیکن یہ کسی خاتون کو بھی نہیں معلوم، خیبر پختونخوا گورنمنٹ نے خواتین کے لیے چار قانون بنائے ہیں جن میں خیبر پختونخوا کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن، ہراسمنٹ اِن ورکنگ پلیسز، وراثت میں حصہ اور کم عمری میں شادی کروانا شامل ہیں۔
اس قانون سازی کے بعد بہت سے ادروں نے ہراسمنٹ کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں لیکن اب بھی بہت سے اداروں اور سکولوں نے نہیں بنائیں جو کہ بنانی چاہئیں۔
عالیہ نواب صاحبہ نے بہت اچھے سے ہراسمنٹ کمیٹی کی وضاحت بھی کی اور بتایا کہ اگر کوئی ادارہ ہے تو اس کے ہیڈ کو چاہیے کہ وہ کچھ بندوں کو یہ ڈیوٹی دے کر ایک کمیٹی بنائیں کہ اگر کوئی سٹاف ممبر یا ادارے سے منسلک کوئی بھی شخص شکایت درج کرے تو اس کی انکوائری کر کے سزا دے دیں؛ مثال کے طور پر اگر ایک کولیگ دوسرے کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اسے چاہیے کہ ایک درخواست لکھ کر ہراسمنٹ کمیٹی میں اپنی شکایت درج کروائے اور کمیٹی غیرمحسوس طریقے سے انکوائری کرے اور جب اس پر اس کی غلطی ثابت ہو جائے تو اسے پراپر سزا دی جائے۔
بعض خواتین نے کہا کہ وہ کئی سکولوں، ہسپتالوں اور اداروں میں گئیں اور ان سے ہراسمنٹ کمیٹی بنانے کا کہا تو انھوں نے بنائی لیکن کچھ ادارے ایسے تھے جنھوں نے بہت سخت رویہ اختیار کیا کہ آپ ہوتے کون ہیں ہمیں کمیٹی بنانے کا کہنے والے جس پر عالیہ نواب صاحبہ نے کہا کہ یہ ہر پاکستانی شہری کا حق ہے کہ وہ کسی بھی ادارے سے ہراسمنٹ کمیٹی کے حوالے سے پوچھے لیکن پوچھنے اور حق جتانے سے بہتر ہے کہ آپ انھیں مشورے کے طور پر یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں کہ اگر آپ ہراسمنٹ کمیٹی بنائیں تو اس سے آپ کو ہی فائدہ ہو گا، آپ کے ادارے میں مسائل نہیں ہوں گے اور اگر مسائل پیدا ہو بھی جائیں تو بھی آسانی سے حل ہو جائیں گے، خاص طور پر خواتین خود کو محفوظ سمجھیں گی، اگر کسی کے ساتھ کوئی بُرا سلوک کرے تو اسے پراپر سزا ملے تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی حرکت دوبارہ نہ کرے۔
کہنے کو تو خواتین کے تحفظ کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے قانون سازی کی ہے لیکن کچھ ادارے ایسے ہیں جو ہراسمنٹ کمیٹی بنانے سے چھڑتے ہیں، امن و سکون کا ماحول بنانے کے لیے لازمی ہے کہ ہر ادراہ اس ایکٹ کو سمجھ کر ہراسمنٹ کمیٹی بنائے تاکہ خود بھی سکون سے رہیں اور دوسرے لوگ بھی وہاں سکوں سے کام کر سکیں۔