لائف سٹائلکالم

"کوئی خوشخبری نہیں ہے؟”

حمیرا علیم

جو خوش قسمت لوگ بچوں والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بچے ایک نعمت ہیں تو آزمائش بھی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں انہیں فتنہ قرار دیا ہے۔ یہاں لفظ فتنہ کسی برائی کی سینس میں نہیں استعمال کیا گیا بلکہ ایک آزمائش کے طور پر آیا ہے۔

ایسا کیوں کہا گیا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ شادی کے چند ماہ بعد ہی سسرال سمیت ہر شخص شادی شدہ جوڑے سے یہ سوال کرنے لگتا ہے: "کوئی خوشخبری نہیں ہے؟” حالانکہ یہ اس جوڑے کا ذاتی معاملہ ہے اور دوسروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کے نہایت نجی معاملے کی کرید کریں۔ مگر یہ ہمارے معاشرے میں اک نارم بن چکا ہے کہ جن چیزوں سے ہمارا کوئی تعلقات واسطہ نہ بھی ہو ان میں بھی دخل اندازی کرتے ہیں۔

اس سوال اور ساس نندوں کے طعنوں کے باعث خواتین مختلف ڈاکٹرز سے کنسلٹ کرنے لگتی ہیں۔ جب وہ انہیں بتاتی ہیں کہ سب نارمل ہے تو وہ جعلی عاملوں، پیروں فقیروں کے چکر لگانے لگتی ہیں جو انہیں نہ صرف نشہ آور ادویات دیتے ہیں بلکہ اپنی ہوس بھی پوری کرتے ہیں، یوں بہت سی خواتین بچے کے حصول کے لیے ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا شکار بھی ہوتی ہیں اور اپنی عزت و عصمت بھی لٹاتی ہیں۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان جعلی پیروں فقیروں کے پاس لے جانے والی بھی مائیں اور ساسیں ہوتی ہیں۔ ایک بار ایک خاتون کی بیٹی کی شادی ہوئی پندرہ دن بعد اس کا شوہر اٹلی چلا گیا۔ لڑکی کی ساس کے طعنوں پر اس کی والدہ اسے بری امام نامی مزار پر لے گئیں جہاں بقول ان کے منت مانی جاتی ہے اور ہر جمعرات کو موتی چور لڈو چڑھائے جاتے ہیں جن کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلی جمعرات کو دو لڈو، اگلی کو چار اور ہر جمعرات پر لڈووں کی تعداد ڈبل ہو جاتی ہے۔ نویں جمعرات پر خوشخبری مل جاتی ہے۔

 

ذرا بے وقوفی یا جہالت کا اندازہ لگا ئیے، ساس اور ماں جو کہ خود کئی بچوں کی مائیں ہوں گی سارے پراسیس سے واقف ہونے کے باوجود ایک ایسی لڑکی کے لیے مزار سے بچہ لینے جا رہی ہیں جس کا شوہر اس کے ساتھ پندرہ دن گزار کر بیرون ملک جا چکا ہے اور کون سا ایسا جادو ہے جو نو جمعراتوں کے بعد اسے پریگننٹ ہونے میں مدد دے گا؟ یہ ہے وہ فتنہ جس سے انسان کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

جن لوگوں کے بچے ہو جاتے ہیں وہ اپنے بچوں کو ہر طرح کا آرام و آسائش مہیا کرنے کے لیے رشوت خوری، حرام خوری اور ہر ناجائز کام سے بھی گریز نہیں کرتے اور یوں اولاد کی خاطر اپنی عاقبت خراب کر لیتے ہیں۔ میرے والد کے ایک کولیگ تھے جنہوں نے ڈپارٹمنٹ کے خرچے پر ایک کنال کی کوٹھی تعمیر کی جس میں ہر چیز بے حد قیمتی استعمال کی گئی، اسے فرنش بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ گاڑی اور لیوشنگ لائف اسٹائل بھی مہیا کیا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو وہ بالکل اکیلے تھے، وفات سے پہلے انہوں نے اپنی ڈائری میں ایک شعر لکھا جس کا مفہوم یوں تھا کہ جن کے لیے میں نے ساری زندگی ہر جائز ناجائز کام کیا وہ میرے آخری وقت میں ساتھ بھی نہ تھے۔ یہ ہے وہ فتنہ جو آخرت بھی خراب کر دیتا ہے۔

اگر اولاد کو کوئی تکلیف یا بیماری ہو تو انسان کی جان پر بن آتی ہے۔ ڈاکٹرز ہاسپٹلز سے مایوس ہو کر انسان پیروں فقیروں مزاروں کے چکروں میں پڑ جاتا ہے۔ یہ بھول جاتا ہے کہ شفا صرف اور صرف اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے۔ اور یوں شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑا فتنہ کیا ہو گا کہ انسان کا دین ہی ختم ہو جائے۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اولاد کو امانت قرار دیا ہے۔ متعدد احادیث میں اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ اور اجر بھی بتایا گیا ہے۔

اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اگر اولاد پیدا ہونے میں دیر ہو تو اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ زکریا علیہ السلام نے جب مریم علیہ السلام کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو پوچھا: "یہ کہاں سے آئے؟” انہوں نے جواب دیا:” اللہ کی جانب سے۔” جس پر انہوں نے دو نفل پڑھے اور رب سے اولاد کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالٰی نے فوراً یحییٰ علیہ السلام کی بشارت دی۔ نہ تو انہوں نے لمبے لمبے وظائف کیے نہ ہی مزاروں کے پھیرے لگائے۔

اولاد کو اس لیے نہ پالیں کہ وہ آپ کا بڑھاپے کا سہارا بنے، اس کی دنیاوی تعلیم پر ہی زور نہ دیجئے بلکہ دینی تعلیم اور اخروی زندگی کے لیے بھی تیار کیجئے۔ ایک شخص کا اکلوتا جوان بیٹا جو اعلی تعلیم یافتہ اور ہر غیرنصابی سرگرمی میں بھی ٹاپر تھا بیمار ہوا، وقت نزع طاری ہوا تو والد سے فرمائش کی: "بابا میری ساری شیلڈز، سرٹیفیکیٹس اور ٹرافیز میرے ساتھ قبر میں رکھ دیجئے گا۔” اس شخص نے روتے ہوئے کہ: "بیٹا وہاں یہ سب کام نہیں آئے گا۔” تو بیٹے نے تعجب سے پوچھا: "پھر آپ نے مجھے وہ سب کچھ کیوں نہ سکھایا جو وہاں کام آئے گا؟”

اس لیے اولاد کی تربیت دینی اصولوں پر کیجئے؛ انہیں نماز کا پابند کیجئے، قرآن کی تلاوت سکھائیے، صدقہ خیرات کروائیے، اللہ تعالٰی کی ذات سے متعارف کروائیے اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت پیدا کیجئے تاکہ وہ اللہ تعالٰی کے احکام پر عمل کریں اور نبی صلعم کی سنت پر چلیں۔

اولاد آزمائش تو ہے مگر اس آزمائش سے ایسے گزریں جیسے ایوب علیہ السلام اپنی بیماری سے گزرے اور انعام پایا۔جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اولاد کی قربانی سے گریز نہیں کیا اور خلیل اللہ بنے۔ ویسے ہی آج ہم بھی اولاد کی اچھی تربیت کر کے اللہ تعالٰی کے انعام کے حق دار ہو سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button