خواتین کہیں جائیں تو بیت الخلاء ملتا نہیں، ملے بھی تو انتہائی غلیظ!
ارم رحمٰن
رفع حاجت یا قضائے حاجت ایک ایسی ضروت ہے جس کے پیش نظر پاکستان میں کبھی بھی بھرپور آگہی فراہم نہیں کی گئی نہ ہی حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جاتا ہے، یہاں سارے ماحول کو صاف رکھنے کی تعلیم بہت کم دی جاتی ہے جبکہ یہ تعلیم تو بچپن سے ہی دی جانی چاہیے تاکہ جب بچہ سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو صفائی رکھنے سے واقف ہو چکا ہو؛ والدین اور اساتذہ دونوں پر صفائی ستھرائی، چاہے جسمانی ہو یا جگہ کی، سکھانا فرض ہے۔
پاکستان کی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے اور اس میں سے 52 فیصد سے کچھ زیادہ ہی خواتین شامل ہیں۔ خط غربت سے نیچے جاتے ہوئے حالات، مہنگائی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے اب خواتین کا ملازمت کرنا نا گزیر ہو چکا ہے کیونکہ آبادی کا زیادہ تر حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور اگر کسی گھرانے میں کمانے والے ایک یا دو مرد ہوں، جبکہ پانچ سات بالکل بے روزگار خواتین، تو وہ دو مرد کس قدر بوجھ اٹھا سکتے ہیں یعنی سب اہل خانہ کی ضروریات زندگی کو پورا کر سکتے ہیں ایسے میں گھر کی خواتین کا ان کے ساتھ مالی معاونت کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ روزگار ملتے نہیں؛ اچھی تعلیم اور صحت کا فقدان ہے۔ مسائل بے انتہا، وسائل محدود!
پاکستان کی آبادی جس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے سمجھ نہیں آتا کہ خرگوش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انسان کے بچوں میں اضافہ جانوروں کے برعکس بہت سی ذمہ داریوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ اگر ذرا سا غور کیا جائے تو انسانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی کی وجہ سے گنجان آباد علاقوں میں ہریالی کم ہوتی جا رہی ہے، جانور کم ہو گئے ہیں، غذائی قلت بڑھی، موسمیاتی تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافہ، انواع و اقسام کی بیماریوں کا پھیلاؤ۔۔ درحقیقت سارا نظام اتھل پتھل ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستانی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ صفائی ستھرائی کے حوالے سے ہے؛ "صفائی نصف ایمان ہے” افسوس پاکستان اس پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتا ہے! پورے ملک میں بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں لیٹرین یا بیت الخلا کا مناسب انتظام موجود ہے، بہت اچھی کمپنیز میں بہت مہنگے ریسٹورانٹ یا عمدہ ہوٹلز میں باقی کہیں بھی رفع حاجت کے لیے مناسب انتظام انصرام موجود نہیں۔
80 فی صد طبقہ بالکل عام عوام پر مشتمل ہے جن کے لیے ملازمت کرنا اشد ضروری ہے لیکن جہاں وہ ملازمت کرتے ہیں ان جگہوں پر رفع حاجت کے لیے جگہ نہیں، جبکہ خواتین کے لیے تو بالکل بھی نہیں!
بس سٹیشن، ریلوے سٹیشن جیسے گہما گہمی رکھنے والی جگہیں جہاں ہر وقت مرد و خواتین سواریاں گزرتی ہیں۔ علاوہ ازیں، دیگر معمولی جگہوں پر ملازمت کرنے والی خواتین کو عام دنوں میں مشکل کا سامنا رہتا ہے، اس کے علاوہ مخصوص ایام میں تو بے انتہا اذیت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کہیں بھی جانا پڑے اول تو بیت الخلا ملے گا نہیں، ملے گا بھی تو انتہائی غلیظ، اوپر سے پانی کا انتظام نہیں ہوتا، عوام لوٹا اور نلکے کی ٹونٹی تک اتار کر لے جاتے ہیں۔
سرکاری پانی آتا نہیں، موٹر کہاں لگے، اور بجلی کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ پانی بھرنے کے لیے موٹر اور ٹینکی کا خرچ کون اٹھائے؟ جمعدار، خاکروب نوابوں سے کم نہیں، باقاعدہ رشوت یا سفارش سے بھرتی ہوتے ہیں، سرکاری طور پر تنخواہ کے حقدار بن جاتے ہیں لیکن اپنا فرض درست طریقے سے انجام نہیں دیتے، وقت مقررہ پر آنا تو دور کی بات، ناغے ہی بہت کرتے ہیں، آ بھی جائیں تو صفائی کے لیے "اوپر کا خرچہ” مانگتے ہیں، ان کو ذاتی طور پر کچھ دینا ہی پڑتا ہے اگر کوئی صفائی کروانا چاہے گلی یا کسی دفتر کی۔
خواتین کے لیے کہیں بھی کوئی خاص، صاف اور محفوظ جگہ موجود نہیں؛ دفاتر میں مرد عورت سب کے لیے ایک ہی واش روم ہوتا ہے۔ کچھ دعوی کرتے ہیں کہ جب عورت مرد کے شانہ بشانہ چلتی ہے تو پھر کسی بھی جگہ تخصیص کیسی؟
اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ ساتھ کام کرنے کی وجہ قابلیت اور صلاحیت کا برابر ہونا ہے، ان کے جسمانی فرق اور ان کے تقاضے برابر نہیں ہو سکتے!
اسی طرح مشاہدے میں آیا ہے کہ بہت سے دفتروں میں بہت ابتر حالت ہے؛ خواتین گھر سے رفع حاجت کرنے کے بعد گھر واپس جا کر ہی اس اذیت سے چھٹکارہ پاتی ہیں، بسااوقات کوئی ایمرجینسی ہو جائے تب انتہائی ذہنی اور جسمانی مشکل کا سامنا کرنا ہڑتا ہے۔
کسی پارک میں، عام بازاروں میں دور دور تک کوئی صاف اور محفوظ مقام تو کیا لیٹرین ہی نہیں، اس کے علاوہ بہت سے بڑے جنرل سٹورز پر ملازمت کرنے والی خواتین کو واش رومز کی سہولت دستیاب نہیں، خواتین کسی ساتھ والے گھر میں یا ہوٹلز میں قضائے حاجت کے لیے جانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
بات رفع حاجت کے لیے بنائے جانے والے مقامات کے علاوہ صفائی اور حفظان صحت کی بھی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن بڑے مالز میں، دفاتر میں، اس کے علاوہ خاص ادارے جیسے سول کورٹ، سیشن کورٹ حتی کہ ہائی کورٹ میں مرد تو مرد خواتین کے واش رومز بھی انتہائی غلیظ ہوتے ہیں، جب کہ اچھی جگہوں پر تو پڑھی لکھی خواتین ہی آتی ہیں۔ اب سول کورٹ، ہائی کورٹ میں تو وکلاء برادری ہی واش روم استعمال کرتی ہے خاص طور پر خواتین کے واش روم تو خواتین وکلاء کے علاوہ عام خواتین استعمال نہیں کر سکتیں وہاں پر بھی انتہائی غلاظت دیکھنے میں آتی ہے، ٹشو پیپرز، سینٹری پیڈز اور جگہ جگہ بکھرے بال، کراہت اور گھن کے ساتھ شدید غصہ بھی آتا ہے کہ جن خواتین کو واش روم صاف رکھنے کی تمیز اور سلیقہ نہیں وہ "وکیل صفائی” کیسے بن جاتی ہیں یا بن سکتی ہیں؟ اب کون کسے کتنا سمجھائے؟
اسی طرح بڑی بڑی گاڑیوں میں امراء حضرات جدید ترین بوفرز پر انگلش گانے سنتے ہوئے برگر شوارمے کھا کر، کولڈ ڈرنک کے ٹن پیکس، اور پھلوں کے چھلکے، آرام سے مہنگی گاڑی کی کھڑکی کے شیشے نیچے کر کے سڑک پر پھینک دیتے ہیں، وہ کسی مسافر پر پڑے یا کسی کی موٹر بائیک کو ان ٹن پیک یا خالی بوتلوں سے کوئی حادثہ پیش آئے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
تعلیم یافتہ طبقہ ہو یا غیرتعلیم یافتہ، امراء، اشرافیہ، مزدور، غریب سب کا ایک ہی شعار ہے کہ "عقل و شعور کا استعمال مضر صحت ہے۔” پنجابی میں کہاوت ہے؛ "عقل نئیں تے موجاں ای موجاں، عقل ہے تے سوچاں ای سوچاں”
کسی کو بھی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں پھر سب کام حکومت پر چھوڑ کر سیاتدانوں اور حکمرانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ پاکستان میں صفائی نہیں۔
"پاکستان” کا مطلب ہی پاک صاف جگہ ہے لیکن پاکستان گندگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ لاہور جیسا قدیم اور تاریخی شہر گندگی کے حوالے سے ان شہروں کی فہرست میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ گندگی پائی جاتی ہے؛ جگہ جگہ تھوکنا اور بچوں کے پیمپرز پھینکنا، ٹشو پیپرز، سگریٹ، پان، شاپر، خالی بوتلیں ایسے پھینکتے ہیں کہ جیسے سارا ملک اپنا ہی تو ہے۔ جب سارا ملک اپنا ہے تو پھر اسے گندا کیوں رکھتے ہیں؟
کہیں بھی جائیں کسی بھی فلائی اوور پر کہیں کسی انڈر پاس سے گزریں پاخانہ اور گند واضح نظر آئے گا۔ مرد حضرات تو ہر جگہ ہی رفع حاجت کے لیے استعمال کر لیتے ہیں بلکہ جن دیواروں کے اوپر چونے سے لکھا ہوتا ہے؛ "وہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔کر رہا ہے” اس کے نیچے اپنا کام انجام دینا فرض عین سمجھتے ہیں، فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے ممنوعہ جگہ گند مچا دیا، پان کھا کر پیک سے نئی رنگ وروغن کو خراب کر دیا۔
جن جگہوں پر بڑے بڑے ڈسٹ بن ہیں اول تو لوگ کچرا اس میں پھینکتے نہیں، ساتھ ہی پڑا دکھائی دیتا ہے۔ بالفرض اگر وہ ڈسٹ بن بھر جائے تو کئی کئی دن اس کو خالی نہیں کیا جاتا، اپنے گھر کے علاوہ گلی محلے سب میں گند کھلم کھلا یا شاپروں میں بند کر کے پھینک دیا جاتا ہے، بارش کے دنوں میں وہ ہی گٹر اور نالوں میں پھنس کر پانی کے نکاس کا نظام خراب کر دیتا ہے؛ جگہ جگہ تعفن اور جراثیم پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔
کھڑے پانی سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ بارش کا پانی سڑکوں اور گلیوں میں مسلسل جمع رہنے سے کرنٹ کے خطرات، چھوٹے بچوں کے نالوں گٹروں میں گر کر ڈوبنے سے اموات کے افسوس ناک اور دردناک واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، غرضیکہ عجب طوفان بدتمیزی ہے؛ گندگی ہی گندگی، تاحد نگاہ۔۔!
دراصل یہ سب ذہنی پراگندگی کا شاخسانہ ہے۔ تعلیم و تربیت بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی تو پھر بتائیے ہم کسی حکمران، سیاست دان کو برا کیوں کہتے ہیں؟ کس نے کہا ہے کہ کوڑا جگہ جگہ پھینکو؟ پبلک باتھ روم گندے رکھو؟ ہر جگہ تھوکو؟ کچرا پھینکو؟ قیمتی گاڑیوں کی کھڑکیوں سے سڑکوں پر گند پھینکو؟ بسوں میں، وینز میں، عدالتوں میں، ہسپتالوں میں ہر جگہ تھوک، بلغم گند غلاظت۔
اس قوم کو گندگی محسوس ہونا ہی بند ہو گئی ہے، بے حس قوم کو چاہے کوئی بھی وزیراعظم آ جائے، بیوروکریٹس آ جائیں، امریکہ اور دیگر ممالک کی امداد مل جائے مگر گندگی تو خود ہی صاف کرنی پڑے گی۔ جب تک ذہنوں کا گند صاف نہیں ہو گا پاکستان کبھی صاف نہیں ہو گا۔