خیبر پختونوا کے سب سے بڑے کڈنی انسٹی ٹیوٹ میں کوئی ماہر سرجن موجود نہیں
عثمان دانش
انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈزیز حیات آباد میں سرجری کے لئے آنے والوں مریضوں کو اسلام آباد سے ڈاکٹر دیکھتے ہیں جو یہاں ڈاکٹرز کو سرجری کی آن لائن ٹریننگ بھی دے رہے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈزیز حیات آباد میں سرجری کا کوئی ماہر ڈاکٹر موجود نہیں ہے، اس حوالے سے محمد اللہ نامی شہری کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈزیز ( آئی کے ڈی) کے ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ کئی سال سے آئی کے ڈی میں مریضوں کی سرجری ہو رہی ہے لیکن کورونا وباء کے دوران سرجری کے عمل کو روکنا پڑا، کورونا کی وجہ سے دو سال تک سرجری کا عمل تعطل کا شکار رہا، اس دوران آئی کے ڈی میں سینئر ڈاکٹرز ریٹائرڈ ہو گئے ہیں، سرجری کا عمل دوبارہ شروع ہوا تو سینئر ڈاکٹرز کی غیرموجودگی میں ہم نے اسلام آباد کے ایک سینئر ڈاکٹر کی خدمات حاصل کر لیں، وہ اب سرجری کے لئے آنے والے مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور آئی کے ڈی کے ڈاکٹرز کو ٹریننگ بھی دے رہے ہیں، ان میں چار سرجن بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر ایک مریض کی جان بہت قیمتی ہے، انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈزیز میں کوئی ماہر ڈاکٹر نہیں ہے، یہ بہت سیریس ایشو ہے، ہسپتال میں مریضوں کو مشکلات نہیں ہونی چاہئیں، تمام سہولیات دستیاب ہونی چاہئیں۔
سماعت کے دوران بہت سے لوگ روسٹرم پر کھڑے تھے، ان میں سے ایک شخص نے عدالت سے بات کرنے کی استدعا کی، عدالت نے ان کو بولنے کا موقع دیا تو اس شخص نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ آئی کے ڈی میں سنیئر ڈاکٹر ہیں، انسٹی ٹیوف آف کڈنی ڈزیز میں پہلی سرجری کرنے والی تین رکنی ٹیم کا وہ حصہ تھے لیکن اب آئی کے ڈی انتظامیہ نے ان کو برطرف کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ اپنے معاملات خود ٹھیک کریں، ہم نہیں چاہتے کہ کسی مریض کو کوئی بھی مسئلہ ہو، ڈاکٹرز کے آپس کے معاملات سے کسی مریض کو ہسپتال میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔
اس موقع پر ڈائریکٹر آئی کے ڈی نے عدالت کو بتایا کہ سینئر ڈاکٹر نے ہسپتال میں کام سے بائیکاٹ کیا اس وجہ سے ان کو برطرف کیا گیا ہے اور اب ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز یا نرسنگ سٹاف کو اجازت نہیں کہ وہ ہڑتال کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر ہسپتال بند کر کے ہڑتال پر چلا جائے۔
چیف جسٹس نے آئی کے ڈی کے لیگل ایڈوائزر منصور طارق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیئرمین بی او جی کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائیں، اگر معاملات ٹھیک نہیں ہوئے تو پھر چیئرمین بی او جی خود آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لئے یہ مشکل نہیں کہ ہم ایک کمیشن بنائیں اور ان سب چیزوں کو دیکھیں، جو ڈاکٹر ڈیوٹی ٹھیک طریقے سے ڈیوٹی نہیں کرتے ہم یہاں سے ان کو برخاست کرنے کے احکامات جاری کریں گے، آپ رپورٹ دیں کہ کتنے ڈاکٹرز کو ٹریننگ دی جا رہی ہے۔
عدالت نے ڈائریکٹر آئی کے ڈی سے سینئر ڈاکٹر کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
درخواست گزار کے وکیل اجمل خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈزیز حیات آباد میں کوئی ماہر ڈاکٹر نہیں ہے، یہ مسئلہ کافی عرصے سے ہے اور مریضوں کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں، انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈزیز میں جب سرجری کے مریض آتے ہیں تو پھر انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ کے کہنے پر اسلام آباد کے ایک سینئر ڈاکٹر جن کا نام سعید اختر ہے، وہ اپنی 14 رکنی ٹیم کے ساتھ آئی کے ڈی وزٹ کرتے ہیں اور مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
ملک اجمل خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ حالت یہ ہے کہ کسی مریض کو تکلیف بھی ہو تو اس کو اسلام آباد سے آنے والے ڈاکٹر کا انتظار کرنا پڑے گا، ڈاکٹر آن لائن مریضوں کو چیک کرتے ہیں اور ساتھ ہی ڈاکٹرز کو بھی ٹریننگ دیتے ہیں اور یہ بات آج ڈائریکٹر آئی کے ڈی نے عداالت کو بھی بتائی کہ وہ آن لائن ٹریننگ دیتے ہیں۔
ملک اجمل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے صحت کے نظام کے ساتھ ہو کیا رہا ہے، ایک طرف ادویات اتنی مہنگی ہیں اور اوپر سے دستیاب بھی نہیں ہیں، پینا ڈول جو ہر گھر کی ضرورت ہے وہ بھی مہنگی کر دی گئی ہے اور دکانوں پر دستیاب بھی نہیں ہے، ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے حال پر رحم کرے، وفاق ہو یا صوبائی حکومتیں وہ صرف اپنی عیاشیوں میں لگے ہیں، عوام کی فکر کس کو ہے؟