بی آر ٹی میں چوری: ”کیمرے بھی کسی کام کے نہیں!”
سلمیٰ جہانگیر
شبنم 2008 میں پشاور یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کر رہی تھیں اور وہ روزانہ اندرون شہر سے لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرتیں، شبنم کے مطابق ان کی فیملی میں وہ پہلی لڑکی تھی جو یونیورسٹی سے پڑھ رہی تھی اس لیے ان کو ہر لحاظ سے بہت خیال رکھنا پڑتا تھا۔
لوکل ٹرانسپورٹ میں روزانہ شبنم کو کسی نا کسی شکل میں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ چھٹی کے وقت رش بہت ہوتا اور بس میں مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی۔ چونکہ بسوں میں عورتوں کے لئے مخصوص نشستیں نہیں تھیں تو مردوں کی مرضی ہوتی، جہاں چاہتے بیٹھ جاتے۔
شبنم کے مطابق وہ اکثر کھڑے ہو کر سفر کرتیں یا مجبوراً اتر کر کسی اور بس کا انتظار کرتیں اور اس طرح اکثر ان کو گھر جانے میں کافی دیر ہو جاتی۔ شبنم نے بتایا کہ ان کی ایک عزیز دوست نے اسی آمدورفت کے مسئلے کی وجہ سے بیچ میں اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بی آر ٹی بننے کے بعد ان جیسی بہت سی خواتین نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ یہ ایسی بس سروس ہے جس میں خواتین کے لئے الگ نشستیں مخصوص کی گئی ہیں اور وہ بغیر کسی خوف و خطر کے سفر کر سکتی ہیں۔
13 اگست 2020 کو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا کے پہلے بس ٹرانزٹ یعنی بی آر ٹی منصوبے کا افتتاح کیا۔ مختلف تنازعات کا شکار ہونے والے اس منصوبے کو تحریک انصاف کے گزشتہ دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کو چلانے کے لیے صوبائی حکومت نے ٹرانس پشاور نامی ریپڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی قائم کی۔
ٹرانس پشاور کی ترجمان صدف کامل نے اس حوالے سے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 2 لاکھ 70 ہزار مسافر بی آر ٹی میں سفر کرتے ہیں، ان میں 25 فیصد خواتین شامل ہیں جن کی تعداد 70 ہزار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بی آر ٹی کی یہ خصوصیت ہے کہ سروس شروع ہونے سے پہلے پبلک ٹرانسپورٹ میں 2 فیصد خواتین سفر کرتی تھیں جبکہ بی آر ٹی کے پہلے سال کے آخر میں خواتین مسافروں کی تعداد 20 فیصد جبکہ دوسرے سال کے اختتام پر یہ تعداد 25 فیصد ہو گئی تھی۔
بی آر ٹی میں خواتین مسافروں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے جو کسی بھی دوسرے پبلک ٹرانسپورٹ میں مختص نہیں۔
پشاور ہی کی رہائشی چندہ کہتی ہیں کہ وہ روزانہ 15 منٹ پیدل چل کر بی آر ٹی بس سٹیشن تک پہنچتی ہیں اور لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے وہ اکثر اپنے آفس دیر سے پہنچتی تھیں لیکن بی آر ٹی میں سفر کرنے سے ان کا روزانہ کا سفر آدھا گھنٹہ کم ہو چکا ہے، انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مزید فیڈر روٹس بنائے۔
تاہم کچھ خواتین کی نظر میں ان کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ابھی بھی کافی گنجائش باقی ہے۔
انہی خواتین میں سے ایک، اور ایک سرکاری سکول میں استانی کے فرائض سرانجام دینے والی رشمین نے بتایا کہ عام بسوں کی طرح بی آر ٹی میں بھی دن دیہاڑے چوریاں ہونے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دن پہلے ان کے پرس سے بی آر ٹی میں کسی نے 8000 روپے چوری کیے جو کہ ان کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔
انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ کیا اب مسافر ان کیمروں کی موجودگی میں بھی محفوظ نہیں ہیں؟
دوسری طرف نعیمہ مراد نجی سکول پشاور میں بطور معلمہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کلاس کے بچوں سے ماہانہ فیس جمع کر کے پیسے پرس میں رکھ دیئے لیکن بدقسمتی سے اس دن بی آر ٹی میں کسی نے میرے پرس سے چوری کی، پورے مہینے تنخواہ کا انتظار کیا کیونکہ اپنی تنخواہ سے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے ہوتے ہیں، اس میں اپنے والدین کی امداد بھی شامل ہے، لیکن اب ان کو اس مہینے کی تنخواہ نہیں ملے گی اور ان کو یہ نقصان بھرنا ہو گا۔ نعیمہ کو بی آر ٹی سے شکوہ ہے کہ اب کیسے ان کے مجرم کو پکڑا جائے۔
اس حوالے سے بی آر ٹی کی ترجمان صدف کامل نے بتایا کہ چوری کے کیسز رپورٹ ہونے پر سٹیشنز پر موجود سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز اور مانیٹرنگ ہوتی رہتی ہے، اس دوران بس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دکھائی جا سکتی ہیں اور چوروں کی شناخت بھی کروائی جا سکتی ہے لیکن چور کو پکڑنا مشکل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بی آر ٹی کے پاس قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے، ایسے معاملات میں پولیس سے مدد لی جاتی ہے (لیکن) اب تک بہت کم شکایات درج ہوئی ہیں۔
صدف نے مزید بتایا کہ بی آر ٹی تمام مسافروں کو محفوظ ماحول فراہم کرتی ہے اور اس غرض سے تمام سٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں تاکہ ایسے معاملات سے بروقت نمٹنا آسان اور ان کی روک تھام ممکن ہو، اس کے علاوہ ایسے معاملات سے بچنے کے لئے مسلسل بس میں اعلانات ہوتے رہتے ہیں کہ "اپنے سامان کی حفاظت خود کریں۔”
انہوں نے کہا کہ صبح آفس اور سکول ٹائمنگ اور دوپہر سکول کالج کی چھٹی کے اوقات میں رش بڑھ جاتا ہے اور سیکیورٹی گارڈز کے لیے حالات کنٹرول کرنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے تو ایسے میں مسافروں کو خود احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ بی آر ٹی سروس مسافروں کو تحفظ فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاکہ محفوظ ماحول تمام مسافروں کو فراہم ہو، شکایات کی صورت میں ان کو مکمل سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور کافی چور پکڑے بھی جا چکے ہیں۔
احمد جو کہ یکہ توت پشاور کا رہائشی ہے، انہوں نے کہا کہ "بی آر ٹی بس سروس کا فائدہ ان کو نہیں ہے کیونکہ انہیں اب بھی سٹیشن تک پہنچنے کے لئے کافی دور پیدل جانا پڑتا ہے، حکومت نے جتنی بسز کا کہا تھا اتنی چل نہیں رہی ہیں۔
اس حوالے سے بی آر ٹی ترجمان نے صدف نے بتایا کہ اس وقت بی آر ٹی کی 158 بسیں کام کر رہی ہیں؛ مزید 62 بسیں آ چکی ہیں، ان بسز کی رجسٹریشن کا سلسلہ جاری ہے اور ایکوپمنٹ کی انسٹالیشن ہو رہی ہے، اس کے علاوہ نئے روٹس پلان ہو رہے ہیں اور جب بسز کی انسٹالیشن اور رجسٹریشن مکمل ہو جائے گی تو ان بسوں کو بھی آپریشنل کیا جائے گا اور اس کے بعد ان کی تعداد 220 ہو جائے گی۔
محمد اسرار نے بتایا کہ بی آر ٹی میں سفر کرنے کا اپنا الگ مزا ہے لیکن حادثے بھی بہت ہوتے ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں کوئی بھی مسافر چھلانگ نہیں لگا سکتا اور دروازہ کھولنے میں وقت لگتا ہے اس لیے بی آر ٹی کے ساتھ مختلف حادثات پیش آنے کے بعد انہوں نے اس میں سفر کرنے سے گریز کیا ہے۔
اس حوالے سے بی آر ٹی کی ترجمان سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے بتایا کہ بی آر ٹی بس سروس بہت کم کسی حادثہ کا شکار ہوتی ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ کوریڈور کے اندر چلتی ہے جس کو ڈیڈیکیٹڈ کوریڈور کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر روڈ پر کوئی حدثہ ہوتا بھی ہے تو بی آر ٹی کی بسز عموماً فعال ہی ہوتی ہیں البتہ مکسڈ روٹ پے اگر کوئی حادثہ ہو جائے یا اگر ٹریفک بند ہو جائے تو اس کی وجہ سے کبھی کبھی بسز تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ترجمان کے مطابق بی آر ٹی کا اصل مقصد عوام کو فائیدہ پہنچانا تھا تاکہ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غریب طبقہ، خواتین یا معذور افراد جن کو پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی بہت مشکل تھی تو ان کو آمدورفت کی سہولت بی آر ٹی کے ذریعے فراہم کی گئی اور اس سے خواتین مسافر کی کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی شرح 2 فیصد سے بڑھ کر 26 فی صد تک پہنچ گئی ہے، اس شعبے میں اتنی خواتین نہیں ہوتیں، بس ریپڈ ٹرانزٹ میں خواتین عملہ منیجمنٹ میں نگرانی، کال سنٹر، ٹکٹنگ، سیکورٹی اور بطور انسپکٹر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں۔
بس ریپڈ ٹرانزٹ میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے والی چترال کی ناظمہ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ وہ پہلے ایک نجی ہسپتال میں کام کر رہی تھیں اور وہاں اگر وہ ایک چھٹی کرتیں تو ان کی تنخواہ نہیں کاٹی جاتی تھی اور پوری تنخواہ ملتی تھی لیکن بی آر ٹی میں ایسا نہیں ہے، یہاں ہر چھٹی پر اس دن کی کٹوتی ان کی تنخواہوں سے ہوتی ہے۔
دوسری طرف بی آر ٹی کی ترجمان صدف کامل نے اس بات کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ دوسرے سرکاری محکموں کی طرح یہاں بھی سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور ہر کنٹریکٹر کی اپنی الگ HR پالیسی ہوتی ہے اور ہر ملازم کی اسی پالیسی کے مطابق چھٹیاں ہوتی ہیں۔
صفیہ جمشید نے بتایا کہ اس نے ٹرانس پشاور میں نوکری کو ایک مہینے بعد ہی خیرباد کہہ دیا تھا کیونکہ وہ ایک سکیورٹی گارڈ کے طور پر تعینات کی گئی تھیں اور اس دوران ان کو دو تین مرتبہ مسافروں کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔انہوں الزام لگایا کہ وہ 8 گھنٹے کام کرتی تھیں لیکن ان کی تنخواہ مرد ملازمین کی نسبت بہت کم تھی۔
دوسری طرف ترجمان صدف کامل نے بتایا کہ ٹرانس پشاور مرد اور خواتین کو ملازمت کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے اور بغیر کسی امتیاز کے مرد اور خواتین ملازمین کے لئے تنخواہ کی حد بھی یکساں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین مسافروں کے ساتھ ساتھ ملازمین کو بھی محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں، خاتون مسافروں کی حفاظت بھی ٹرانس پشاور کی اولین ترجیح ہے، ہر اسٹیشن پر خواتین سیکورٹی اسٹاف موجود ہوتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ تمام اسٹیشنوں اور بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگا دیئے جائیں، اس کے علاوہ بس میں ایک علیحدہ سیکشن بھی خواتین مسافروں کے لئے فراہم کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے سفر کو آرام دہ اور آسان بنائیں۔
صفیہ جمشید نے مزید کہا کہ ملازمت چھوڑنے کی ایک اور وجہ ان کا حمل بھی تھی کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ بی آر ٹی میں ملازمین کو لمبی چھٹی نہیں ملتی اور ان کو ملازمت سے برخاست کیا جاتا ہے۔
خواتین کی میٹرنٹی لیو کے حوالے سے صدف نے بتایا کہ خواتین کو 3 مہینے میٹرنٹی لیو دی جاتی ہے جس کے لئے ان سے تنخواہوں کی کٹوتی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ خواتین ملازمین کے لئے دفتری ماحول انتہائی سازگار ہوتا ہے، خواتین ملازمین کا علیحدہ اسٹاف/کامن روم، نماز روم وغیرہ ہوتا ہے، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے خلاف ایک پالیسی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ پالیسی کے مطابق مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔