”مجھ سے شادی کر لیں آپ کو ثواب ہو گا”
حمیرا علیم
بچپن میں بس اور کوچز کا سفر کرتے تھے اب تو عرصہ ہی ہو گیا بذریعہ بس سفر کیے ہوئے۔
گوجرانوالہ سے راولپنڈی یا لاہور سے راولپنڈی کا سفر بڑے مزے کا ہوتا تھا۔ رنگ برنگی پھولوں اور جانوروں کی تصاویر سے مزین بسیں ہوتی تھیں جبکہ کوچز ذرا سوبر اور ایک یا دو رنگوں کی ہوتی تھیں۔ کوچ کا مزا یہ ہوتا تھا کہ گوجرانوالہ سے چلتی تھی اور جہلم میں آدھا گھنٹہ رک کر 5 گھنٹوں میں راولپنڈی پہنچا دیتی تھی۔ اور ان میں اے سی، ہیٹر اور وی سی آر پر مووی دیکھنے کی سہولت بھی ہوتی تھی۔ جبکہ بس ایسے چلتی تھی جیسے لوکل بس ہو، جہاں کسی مسافر نے ہاتھ دیا رک کر اسے سوار کر لیا، جہاں کسی نے کہا روک دیا۔
ہم لوگ ہمیشہ گرمیوں کی چھٹیوں میں گاوں جانے کیلئے کوچ یا بس سے سفر کرتے تھے۔ بس سٹاپ سے ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھ جاتے اور انتظار کرتے کہ کب بس بھرے اور چلے۔ اس دوران بس کے انٹیرئر کا جائزہ لیتے؛ رنگ برنگے پردے جو کھڑکیوں پر لگے ہوتےتھے، ڈرائیور کی سیٹ کے سامنے ونڈ شیلڈ پر لٹکتے موتیوں کی مالائیں، ہینگنگ باسکٹ، لیس لگی بیلیں، بیک ویو مررز، اور کچھ اشعار یا دعا کی درخواست۔۔۔
"بس کے چلنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیجئے”
بندہ پڑھ کر خوفزدہ ہو جائے کہ شاید یہ آخری سفر ہو۔ جب بس کا اندرونی معائنہ کر چکتے تو سٹاپ پر کھڑی دوسری بسوں کا بیرونی معائنہ کرتے۔ اس میں سب سے مزے کی بات یہ ہوتی کہ ان بسوں کے پیچھے لکھے اشعار بعض اوقات بڑے مزے کے ہوتے تھے۔ یا کچھ جملے جو زبان زدعام ہو جاتے تھے جیسے کہ:
"ماں کی دعا جنت کی ہوا
پپو یار تنگ نہ کر
ہارن دے کر پاس کریں
پاس کر یا برداشت کر”
ایک شعر تو اس قدر مزیدار تھا کہ آج بھی یاد ہے:
” آج کلی ہے کل گلاب ہو گا
مجھ سے شادی کر لیں آپ کو ثواب ہو گا”
یا ایک بڑی سجی سجائی نئی نویلی دلہن جیسی بس کے فرنٹ پر موٹے حروف میں لکھا تھا:
"کیسی لگ رہی ہوں میں؟”
ایسے جملے پڑھ کر بے ساختہ قہقہہ نکل جاتا اور دوسرے مسافر گھور کر دیکھتے کہ کہیں اس کا دماغ تو خراب نہیں کہ چپ چاپ بیٹھے بیٹھے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ہے۔
اللہ اللہ کر کے بس بھرتی تو کنڈیکٹر سب کے ٹکٹس چیک کرتا۔ اور "چلو استاد جی” کہہ کر روانگی کا کاشن دیتا تو ڈرائیور بسم اللہ کہہ کر گاڑی چلا دیتا۔ سڑک پر پہنچ کر وہ یا تو میڈم نورجہاں کے پنجابی گانے یا انڈین لتا اور رفیع کے ایسے اداس گانے لگا دیتا کہ پورا رستہ بندہ خوامخواہ ہی ڈپریشن کا شکار ہو جائے۔ 5 گھنٹوں میں ایک کیسٹ اتنی بار ‘ری پیٹ’ ہوتی کہ آخری سٹاپ پر پہنچ کر ہر گانا معہ ٹیون کے یاد ہو جاتا تھا۔
جونہی بس راہوالی سے نکلتی کسی بچے کی ریں ریں بلند ہوتی اور اماں اسے چپ کراتیں مگر وہ بھی ایک نمبر کا ڈھیٹ ثابت ہوتا نا صرف مستقل روتا بلکہ آہستہ آہستہ بلند سروں میں ساری بس سر پر اٹھا لیتا۔ اس کی دیکھا دیکھی کچھ اور بچے بھی شروع ہو جاتے اور پورا کورس اس وقت تک بجتا جب تک کہ کہیں بس رکوا کر انہیں ان کی مطلوبہ چیز مہیا نہ کر دی جاتی۔
ہمارے والدین ذرہ محتاط ثابت ہوئے تھے لہذا گھر سے ہی جوسز، چپس، نمکو، ببل گمز، فروٹس کے شاپرز ساتھ لے لیتے تھے تاکہ ایسی سچوئشن سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ کچھ بچوں کی بُکس بھی ساتھ لے لی جاتی تھیں کہ مجھے چلتی بس سے باہر کا نظارہ کرنے کی بجائے پڑھنا پسند تھا۔ جبکہ باقی سب بہن بھائی اور زیادہ تر مسافر کھڑکی سے باہر سڑک کنارے بسے شہروں، قصبوں اور دریاؤں، ندی نالوں، میدانوں پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے رہتے تھے۔ یا سو جاتے تھے۔
شروع میں ڈرائیور درمیانی رفتار سے بس چلاتا تو کچھ لوگ جنہیں وقت پہ پہنچنے کی جلدی ہوتی تھی وہ اسے بار بار کہتے: "استاد جی! ذرا تیز چلائیں نا۔”
جونہی بس کا ڈرائیور یہ دیکھتا کہ اس کے پندرہ منٹ بعد چلنے والی بس اس کے بالکل پیچھے آ رہی ہے تو یکدم جوش میں آ کے بس کو راکٹ بنا دیتا، کئی گاڑیوں کو ایسے اوور ٹیک کرتا کہ کمزور دل مسافر آنکھیں بند کر کے کلمہ شہادت کا ورد شروع کر دیتے کہ بس اب ٹکرائی کہ تب ٹکرائی۔ اب وہی بے صبرے مسافر کہہ رہے ہوتے تھے:
"ہتھ ہولا رکھو استاد جی!”
پر استاد جی کو تو پچھلی بس سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا لہذا وہ بالکل بہرے بن جاتے۔ اس دوران اگر کسی مسافر فیملی کے چھوٹے بچے کو واش روم جانے کا مسئلہ درپیش ہو جاتا اور یہ درخواست کی جاتی: ” استاد جی ذرا سڑک کنارے روکنا گڈی، بچے نے باتھ روم جانا اے” تو استاد جی کا تو بس نہ چلتا کہ بچے کو وہیں چھوڑ کر چلے جائیں، اب بچے بیچارے کا کیا قصور، اس زمانے میں پیمپرز تو ہوتے نا تھے نا ہی کوچز کی طرح واش روم اندر ہی ہوتے تھے۔ بہرحال ڈرائیور کبھی بھی نا نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ گاڑی سڑک کنارے کھڑی کر دیتا تھا۔
کچھ خواتین کو بس چلتے ساتھ ٹریول سِکنِس کی وجہ سے وامٹنگ شروع ہو جاتی؛ گرمیوں میں تو کھڑکی کھول کے بیٹھنا مسئلہ نہ ہوتا تھا پر اگر سفر سردی میں ہوتا تو سب مسافر ذرا سی کھڑکی کھلنے پہ آنے والے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پر ٹھٹھر کر آواز لگاتے:
” ذرا جلدی بند کر دیں مہربانی کر کے!”
چنانچہ ایسی خواتین گھر سے شاپنگ بیگز ساتھ لے کر چلتی تھیں۔ اللہ اللہ کر کے جہلم سٹاپ پر پہنچتے تو سب سے پہلے ہوٹل کے واش روم کا رخ کیا جاتا۔ پھر ہوٹل سے چائے، کولڈ ڈرنک یا کھانا کھایا جاتا۔ کچھ لوگ اس دوران باہر ٹہل کر ٹانگیں سیدھی کرتے اور اگر نماز کا وقت ہوتا تو کچھ نماز ادا کرتے۔ 30 منٹ بعد سب فریش ہو کر دوبارہ بس میں بیٹھ جاتے اور پھر سے وہی سب سلسلہ چل پڑتا۔
کبھی جو رات کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو میری گناہگار آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کیسے ڈرائیور حضرات میں سپر پاورز ہوتی ہیں جن کا مظاہرہ وہ ایسے کرتے ہیں کہ سوتے میں بس یا کوچ کو ڈرائیو کرتے رہتے ہیں۔ اور ایسا صرف کچھ سیکنڈز کیلئے نہیں بلکہ کچھ منٹس کیلئے ہوتا تھا۔ یہ تو شکر ہے مسافر بھی سو رہے ہوتے تھے ورنہ تو شاید ان کی چیخ و پکار سے ہڑبڑا کر اٹھنے والا ڈرائیور یا تو کسی گاڑی سے ٹکر کر بیٹھتا یا سڑک کنارے کسی چیز پر گاڑی چڑھا دیتا۔اور اگر کبھی کوئی مسافر جاگ رہا ہوتا اور ڈرائیور کو اٹھانے کیلئے آواز لگاتا تو ڈرائیور فوراً آنکھیں کھول کر بڑی دلفریب مسکراہٹ کےساتھ جواب دیتا:
"باو جی! میں ستا تھوڑی ساں بس ذرا آکھ بند ہو گئی سی۔”
بعض اوقات کوئی بڑا دلچسپ واقعہ بھی ہو جاتا تھا جیسے کہ ایک آنٹی اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ سفر کر رہی تھیں، بیٹیوں کو انہوں نے کھڑکی والی سائیڈ پہ بٹھایا اور خود درمیانی حصے والی سیٹ پہ بیٹھیں کہ لڑکیوں کو کوئی تنگ نہ کر سکے۔ کھڑکی کے ساتھ بیٹھی لڑکی ہر تھوڑی دیر بعد کسمساتی، اس کی بہن کو کچھ محسوس ہوا اس نے کھڑے ہو کر پیچھے دیکھا تو ایک شخص سیٹ کی سائیڈ سے ہاتھ آگے کر کے اس کی بہن کو تنگ کر رہا تھا۔ لڑکی چلائی: "شرم نہیں آتی اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو تنگ کرتے ہوئے۔”
اس کے اتنا کہنے کی دیر تھی مرد حضرات نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور اس بندے کی ٹھکائی شروع کر دی، ڈرائیور نے گاڑی روکی اور کنڈیکٹر سے بولا: ” اوئے اتار اس بے غیرت کو گاڑی سے!” کنڈیکٹر نے بھی اتارنے سے پہلے دو ہاتھ جڑے اس کو اور ٹھڈا مار کے باہر پھینک دیا۔ بس دوبارہ سے رواں دواں ہو گئی مگر مزے کی بات یہ تھی کہ کئی بزرگ خواتین اس شخص کو برا بھلا کہہ رہی تھیں جبکہ ان لڑکیوں کی ماں ایسے خاموش بیٹھی تھی جیسے اس کی بیٹی کی بجائے کسی اور کی بیٹی کےساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ شاید پریشان تھی یا کچھ اور مسئلہ تھا۔
ایک اور غنڈہ گردی بھی بڑی عام تھی اس وقت؛ سٹوڈنٹس کے پاس کارڈز ہوتے تھے جن کو دکھا کر وہ کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر سوار ہو سکتے تھے۔ اور اگر وہ یونیفارم میں ہوں تو اپنا حق سمجھتے تھے کہ بس ضرور ہی رکے اور انہیں سوار کرے چاہے کوئی سیٹ ہو یا نا ہو۔ بس ڈرائیور مجبوراً گاڑی روکتا کیونکہ اگر گاڑی نہ روکی جاتی تو وہ پتھراؤ شروع کر دیتے تھے۔ اور یہ سٹوڈنٹس یا تو چھت پہ چڑھ جاتے یا بس کے پیچھے لگی سیڑھیوں سے لٹک جاتے۔ میں یہ سوچ کر ہی دہل جاتی کہ اگر کسی کا ہاتھ یا پاؤں پھسل جائے تو کیا ہو گا۔ اللہ کا شکر ہے ایسا کم ہی ہوتا تھا مگر بعض اوقات اس وجہ سے لڑکوں کی جانیں بھی چلی جاتی تھیں۔
اگر کبھی بس کا ٹائر برسٹ ہو جاتا تو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ضائع ہو جاتا لیکن دیر سویر منزل مقصود پہ پہنچ ہی جاتے تھے۔ جس وقت بس سٹاپ میں داخل ہوتی مانو سکون کی سانس لیتے کہ نورجہاں یا انڈین گانوں سے جان چھوٹی۔ اب تو نہ وہ بسیں رہیں نہ ہی مسافر، لگژری کوچز میں اے سی، ہیٹر، برتھس، واش روم، سیٹس پہ ایل ای ڈیز، لگتا ہے بندہ جہاز میں سفر کر رہا ہے۔