26000 تنخواہ۔۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر
لائبہ حسن
”مہنگائی کے دور میں 26000 تنخواہ ایسے ہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔” یہ کہنا ہے پشاور کے نجی ادارے کے ملازم جلارس کا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام سرکاری شعبوں کے صنعتی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی مختلف کیٹیگریز کے لیے اجرتوں کی کم از کم شرح (26000 روپے ماہانہ) بڑھانے کی منظوری دی ہے۔ یہ منظوری 11 اگست 2022 کو وزیراعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔
اجلاس میں کابینہ کے ارکان کے علاوہ صوبائی چیف سیکرٹری، آئی جی پی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اور مختلف سرکاری محکموں کے انتظامی سیکرٹریز نے بھی شرکت کی۔ نجی شعبے کے حوالے سے کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کا فیصلہ خیبر پختونخوا کم از کم اجرت بورڈ کر سکتا ہے۔
صوبائی کابینہ کے فیصلوں کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محمود خان کی متحرک قیادت میں صوبائی حکومت موجودہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مزدور برادری کو درپیش مشکلات سے پوری طرح آگاہ ہے، اور معاشرے کے پسماندہ طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے دستیاب وسائل کے دائرہ کار میں ہر ممکن اقدامات کیلئے آمادہ بھی۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت معلومات لی گئیں، ادارہ برائے خیبر پختونخوا ڈائریکٹوریٹ لیبر کے مطابق یکم جنوری سے 30 ستمبر 2022 تک کم از کم اجرت پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف درج کیے گئے کل مقدمات کی تعداد 1,980 ہے جبکہ دوسری جانب قوانین خلاف ورزیوں پر جرمانے کی شکل میں سخت سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ 2022 کے دوران ڈائریکٹوریٹ نے کم از کم اجرت ایکٹ 2013 کے تحت 11,520 معائنے کئے اور اس عرصے کے دوران نادہندگان کے خلاف 1,980 مقدمات چلائے گئے جبکہ عدالتوں نے 1,540 مقدمات کا فیصلہ کیا اور 5.990 ملین روپے کے جرمانے عائد کئے۔
حکومت نے خیبر پختونخوا کم از کم اجرت ایکٹ 2013 کے تحت ایک کم از کم اجرت بورڈ بھی قائم کیا ہے تاکہ صنعتی اور تجارتی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی مختلف کیٹیگریز کے لیے اجرتوں کی کم از کم شرحیں مرتب کی جائیں۔ اجرت کی کم از کم شرحوں کے تعین اور نوٹیفکیشن کے لیے صوبائی حکومت کو سفارشات پیش کرتے ہوئے ورکرز اور آجر دونوں کو بورڈ میں مناسب نمائندگی فراہم کی گئی ہے۔ بورڈ نے یکم جولائی 2022 سے غیرہنرمند کارکنوں کے لیے کم از کم اجرت کی شرح کو بڑھا کر 26,000 روپے ماہانہ کر دیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہ اجرت بیس ہزار سے کم تھی۔
اقتصادی حالت اور زندگی کی لاگت میں تبدیلیوں کی وجہ سے کم از کم اجرت کی شرح ہمیشہ نظرثانی/بڑھائی جاتی ہے اور مناسب سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو تاہم، اس طرح کا جائزہ کم از کم اجرت کی متعلقہ شرحوں کے تعین کی تاریخ سے ایک سال سے پہلے اور تین سال بعد میں نہیں کیا جا سکتا۔
محکمہ محنت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کم از کم اجرت سے متعلق احکامات کو صحیح معنوں میں نافذ کیا جا سکتا ہے اگر لیبر افسران اور انسپکٹرز کو خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کرنے کا حق دیا جائے، مزدور اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے آجروں کے استحصال کا سب سے زیادہ شکار ہیں، جو نہ صرف اپنے ملازمین کو کم رقم ادا کرتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کی طرح اوور ٹائم دیے بغیر انہیں لمبے گھنٹے تک مصروف بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان لیبر قوانین کو نافذ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
دوسری جانب پشاور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ موجودہ مہنگائی میں اس تنخواہ میں گزارہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ ڈبلیو ایس ایس پی کمپنی کے ایک سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ میری 12 گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے میری تنخواہ 20 ہزار ہے، ان بیس ہزار روپوں میں گھر کے کھانے پینے کے اخراجات سمیت بجلی کے ہزاروں روپے کے بل جمع کروانا ہم جیسے ملازموں کیلئے نہایت ہی مشکل ہے، کبھی کبھار سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے ہم یہ بل بھریں، کہاں سے ہم اپنے مہینے کا راشن پورا کریں، ہمارے گھر گھی کی روٹی نہیں بنتی اور سالن میں بھی نہایت کم مقدار میں گھی موجود ہوتا ہے، حکومت کے فیصلے کے بعد نا تو ہماری تنخواہیں بڑھیں نا ہی مہنگائی ختم ہوئی، حکومت نے تنخواہ میں 5 ہزار اضافے کے ساتھ ساتھ اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان تک پہنچا دیں۔
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی کیونکہ تاجروں نے سرکاری پرائس لسٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیمتیں بڑھا دیں تاہم پشاور کی ضلعی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ صوبائی حکومت کی ہدایات پر قیمتوں میں اضافے اور اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پر دکانداروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ لیکن پشاور میں مہنگائی پر قابو نہ پایا جا سکا اور صارفین کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
صارفین نے شکایت کی کہ حالیہ دنوں میں پشاور اور صوبے کے دیگر علاقوں میں گھی اور چکن کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ گھی کی قیمت 500 روپے فی کلو جبکہ چکن 321 روپے فی کلو ہو گیا ہے۔
پشاور کے رہائشی علی اکبر کے مطابق حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہ کیے جانے کے باوجود آٹا، گھی، سبزیاں، پھل، گوشت اور چکن کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں پہلے درجے کے گھی کی قیمت 450 روپے سے بڑھ کر 500 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح گزشتہ ہفتے کے دوران سبزیوں اور دالوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چکن کی قیمت میں ایک ہی دن میں 26 روپے کا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ 321 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
صارفین نے مطالبہ کیا کہ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کرے۔
اجرت انڈیکیٹر
اجرت انڈیکیٹر کے مطابق کم از کم اجرت آرڈیننس 1961 کے تحت بیان کیا گیا ہے، اس کا مطلب تمام معاوضے ہیں جن کا اظہار مانیٹری شرائط میں کیا جا سکتا ہے، اور ملازمت کے معاہدے کی واضح یا غیرواضح شرائط کی تکمیل پر کسی شخص کو قابل ادائیگی ہے لیکن اس میں کارکن کی جانب سے آجر کی طرف سے ادا کردہ شراکت شامل نہیں ہے۔
سوشل انشورنس، پنشن فنڈ یا پراویڈنٹ فنڈ کی کسی سکیم کے تحت؛ سفری الاؤنس یا کسی سفری رعایت کی قیمت ہے۔ مزدور کی طرف سے اپنے روزگار کے سلسلے میں اٹھائے گئے خصوصی اخراجات کی ادائیگی کے لیے ادا کی گئی رقم؛ سالانہ بونس کے طور پر ادا کی گئی کوئی بھی رقم؛ یا معاہدہ ختم ہونے پر ادا کی گئی کوئی گریچوٹی۔ کم از کم اجرت آرڈیننس، 1961 تمام صنعتی اداروں کے ملازمین پر لاگو ہوتا ہے (چاہے ہنرمند ہوں، غیرہنر مند یا اپرنٹس اور یہاں تک کہ گھریلو ملازمین) لیکن اس میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے ملازمین، کوئلے کی کان کے ملازمین یا زراعت میں ملازمت کرنے والے افراد شامل نہیں ہیں۔
نیم ہنرمند، ہنرمند اور انتہائی ہنرمند کارکنوں کے لیے کم از کم اجرت کا تعین کم از کم اجرت آرڈیننس، 1961 کے تحت تشکیل کردہ کم از کم اجرت بورڈز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ صوبوں میں قائم مختلف صنعتوں کے لیے کم از کم اجرت کے تفصیلی نوٹیفکیشن بعد میں صوبائی محکمہ محنت کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کم از کم اجرت ایکٹ، 2013) جو تمام صنعتی اداروں کے ملازمین پر لاگو ہوتا ہے (چاہے ہنرمند ہوں، غیرہنرمند یا اپرنٹس اور یہاں تک کہ گھریلو ملازمین) لیکن اس میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے ملازمین، کوئلے کی کان کے ملازمین یا زراعت میں کام کرنے والے افراد شامل نہیں ہیں۔ کوئلے کی کانوں کے مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت کی شرح کا تعین کول مائنز (اجرت کی شرحوں کا تعین) آرڈیننس 1960 (مائنز ویلفیئر بورڈز کی مشاورت ) کے تحت کیا جاتا ہے۔