لائف سٹائلکالم

بھائی مت کہیے۔۔۔!

ارم رحمان

”ارے بھائی بات سنو! بھائی یہ دکھانا، بھائی پیچھے ہٹو، بھائی راستہ دینا!”

یہ "بھائی” ہمارے معاشرے میں طرز تخاطب کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہماری خواتین خاص کر پنجاب کی، وہ تو سب کو ہی بھائی کہتی ہیں، اپنی اولاد کو بھی اور کبھی کبھی شوہر نامدار تک کے لیے منہ سے پھسل جاتا ہے اور پھر کچھ معصوم لوگ فتویٰ لیتے پھرتے ہیں کہ اب کیا بنے گا!

تو پیارے بھائیو! یہ لفظ سن کر آپ نے گھبرانا نہیں ہے بلکہ شکر ادا کرنا ہے کہ اسلام میں منہ بولے بھائی کی قطعاً اہمیت ہے نہ گنجائش اور یقیناً ہمیں اپنے مسلمان ہونے ہر جتنا بھی فخر ہو کم ہے کیونکہ ۔۔راکھی بندھن۔۔ بالکل بین ہے! کسی بھی راہ چلتے کو جذبات میں آ کر راکھی باندھ دی چاہے اگلا رشتہ بھیجنے والا ہو پھر پتہ نہیں کس طرح وہ جذبات کا دھارا محبوبہ سے بہن کی طرف موڑتا ہو گا۔

خیر ہمارے ملک میں تو الحمدللہ بھائی کا لفظ احتراماً نہیں احتیاطاً کہا جاتا ہے کیونکہ صرف ”سنیے۔۔ ارے سنیے۔۔ اجی سنیے۔۔!” یہ الفاظ مخصوصہ ہیں سرتاج کو پکارنے کے لیے جس میں شرم، احترام اور احتیاط سب شامل ہیں۔

لیکن عام جگہوں پر جیسے بازار میں یا کوئی گھر پر آئے؛ باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا نہ ہو تو عورت کھڑکی سے جھانک کر یا دروازے کی اوٹ سے پوچھ لیتی ہے، ”بھائی دروازے پر کون ہے؟”

یا

”بھائی اپنا نام بتا دیجیے متعلقہ شخص کو بتا دیا جائے گا؟”

بازاروں میں، دکانوں پر، راستے میں جہاں کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے وہاں تو اپنے ساتھ والے کو مڑ کر دیکھنے کی پوزیشن نہیں ہوتی اس لیے سب خواتین کا پسندیدہ اور مردوں کا آزمودہ لفظ "بھائی” استعمال کرنا انتہائی مناسب رہتا ہے۔

اب ہر عورت ہر کسی کو بیٹا یا چاچا، انکل وغیرہ نہیں کہہ سکتی لہٰذا تمام حضرات اس بات کو سمجھیں اور اگر طبع نازک پہ اتنا گراں گزرتا ہے تو دل پر پتھر رکھ کر سننے کی عادت ڈالیں، مجھے ہمدردی ہے ان جوان لڑکوں سے جو کسی نازک اندام حسینہ کے منہ سے بھائی سن کر "سن” ہو جاتے ہیں۔

دو چار منٹ کے لیے دکان پر آنے والی لڑکی یا راستے سے گزرنے والی لڑکی یا جوان عورت نے اگر بھائی کہہ بھی دیا تو حرج کیا ہے؟ کیا مرد حضرات اس لفظ سے اتنے رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں؟

مجھے اب اندازہ ہوا ہے کہ مرد حضرات میں دل کا دورہ پڑنے کی شرح خواتین سے کئی گنا زیادہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ لوگ کہتے ہیں کہ مرد عورتوں کی طرح روتے نہیں، ہر بات دل میں رکھتے ہیں، برداشت کرتے ہیں جبکہ میرا ماننا یہ ہے کہ مرد جتنی گندی گالیاں دے کر بھڑاس نکالتے ہیں اس کی نسبت عورت گھنٹہ بھر بھی رو لے تو اس گالی کے اثرات کا عشر عشیر بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔

مرد کی ہر گالی ماں بہن سے شروع ہوتی ہے اور اس پر ختم ہوتی ہے تو اگر کسی نے بھائی کہہ بھی دیا تو دو اسے گالی ،پتہ لگ جائے گا کہ مرد کے دل میں اپنی ماں بہن اور محرم خواتین کا کتنا احترام اور عزت ہے؟ ان کی نظر میں عورت کی کیا اہمیت ہے؟

عورت کبھی باپ بھائی کی گالی نہیں دیتی کیونکہ گالی ہر صورت اسے ہی پڑتی ہے، برداشت صبر جتنی عورت میں ہے مرد سمجھ ہی نہیں سکتا، سوچنا تو بہت دور کی بات ہے۔ بازار میں گزرتے ہوئے ایک جوان لڑکی نے ایک مرد کو جو چوڑا ہو کر کھڑا تھا بس اتنا کہہ دیا "بھائی سائیڈ پر ہو جائیں ٹکرائیں مت” پھر اس جاہل مطلق نے اس لڑکی کو دو تین بار جان بوجھ کر دھکے دیئے اور ایسے ظاہر کیا کہ رش ہے تو ٹکرانا تو پڑے گا۔

اور کئی بار مشاہدے میں آیا کہ مرد جان بوجھ کر راہ چلتی عورتوں کو دیکھ کر کہنی سینے پر مارنے کی کوشش کرتے ہیں یا عورت دکان پر کھڑی چیزیں لے رہی ہے پیچھے سے مرد اس کو انتہائی بے ہودہ انداز میں چھونے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔۔ اور دکھ کی بات۔۔ پہلے زمانے کا مشہور ڈائیلاگ تھا "تمھارے گھر میں ماں بہن نہیں” لڑکے شرمندہ ہو جاتے کیونکہ مرد تو بال بچوں والے ایسے نہیں ہوتے تھے جوان کم عمر لڑکے ہی شوخیاں دکھاتے تھے۔

پھر زمانہ آیا "تمھارے گھر میں ماں بہن نہیں” جواب ملتا وہ تو ہیں مگر بیوی نہیں.. پھر آج کا زمانہ ہے جہاں دور جہالت عروج پر ہے، اپنے گھر میں ماں، بہن، بیٹی ایک چھوڑ چار  چار، چھ چھ مگر مرد کی ہوس نہیں ختم ہوتی اور افسوس ترین بات کہ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے دردناک اور شرمناک واقعات سے۔۔ کہ باپ کی اپنی بیٹیوں تک پر پڑنے والی نظر پاک نہیں۔

آخر کتنا گرنا ہے؟ گر کر اٹھ نہ سکے اور روز محشر ہی اٹھے تب کیا ہو گا۔ دنیا بھر میں مسلمان بدنام ہیں عیاش اور جھوٹے کے نام سے، کچھ لوگ کہتے ہیں مذہب کو درمیان میں نہ لایا کریں۔ چلیے نہیں لاتے۔ پھر انسانیت کا مطلب کیا ہے؟

انسانیت کی معراج ہی تو اسلام ہے، آپ اسے کوئی بھی نام دیں لیکن گھوم پھر کر سب کچھ اسلام میں ہی ملے گا۔ اور دوسرے مذاہب کو بھی دیکھ لیجیے تو وہ بھی تو اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں، اب منسوخ ہو گئے کیونکہ اسلام میں سب مذاہب کا نچوڑ ڈال کر نازل کر دیا اس لیے آخری ہے اور قیامت تک رہے گا کیونکہ کچھ ایسا ہے نہ ہو گا جس کی تعلیمات اسلام میں نہیں۔

اور اس کا مطلب بھی تو "سلامتی” ہی ہے۔

سب کی سلامتی سب کی خیرخواہی۔ اگر کوئی کسی اور مذہب کا پیروکار ہے تو بتا دے اس کے عقیدے میں ظلم اور زیادتی کرنے کی اجازت کو کب جائز قرار دیا گیا ہے؟

کوئی بھی اچھا انسان کسی کا بھائی یا بہن، ماں یا باپ، بیٹا بیٹی نہ بھی ہو لیکن ان کے ہم عمر دیکھ کر اپنے ماں باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی یاد آ جائیں یا ان کا خیال آ جائے تو ہمارے لب و لہجے اور رویے میں ازخود نرمی اور پیار آ جاتا ہے۔ ہم جب کسی کو بڑا سمجھتے ہیں تو چاچا، بابا، اماں جی، آپی اور بھائی کہہ ڈالتے ہیں۔

تو میرے بھائی! اس میں برا کیا ہے؟ عزت راس نہیں آتی تو کھل کر کہو! پھر جوبے عزتی ہو گی تیار رہنا، کسی کو اگر بھائی کہا جائے تو یاد رکھیے کہ عورت اس مرد کو غنڈہ بدمعاش نہیں سمجھتی اور اس کے ساتھ بات کر کے پرسکون ہے۔

پیارے بھائیو! آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ابھی خواتین آپ کو بھائی جیسے مقدس نام سے پکارنا پسند کر رہی ہیں ورنہ بدقماش اور بدنیت مرد کو دیکھ کر تو عورت بات کرنا تو کیا ایک لمحے اس جگہ ٹھہرنا پسند نہیں کرتی۔ مجھے امید ہے آپ اپنی بہن کی بات کو سمجھیں گے۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button