لائف سٹائلکالم

کاکاجی صنوبر حسین: کیا نئی نسل اپنے اس ہیرو کو جانتی ہے؟

محمد سہیل مونس

اسلام آباد کے ایک مال میں ایک بچے نے قائد اعظم کی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو ماں نے جواب دیا کہ بیٹا یہ پاکستان کے ابراہم لنکن ہیں۔

ہم دھیرے دھیرے اپنے ہیروز اور نامور لوگوں کو بھولتے جا رہے ہیں بلکہ نئی نسل کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے ہیروز ہیں کون؟ بڑے بڑے ناموں کے علاوہ ان اصل ہیروز کو نئی نسل سرے سے جانتی ہی نہیں اور نہ ان کو ان کے نام تک معلوم ہیں۔

میں آج قارئین کو جنگ آزادی کے ایک نامور ہیرو کے بارے بتانا چاہوں گا جس کو نئی نسل کم ہی جانتی ہو گی بلکہ پاکستان میں دکھ اس بات کا بھی ہے کہ یہاں پختون غازیوں، شہداء اور زعماء کا ذکر بہت کم ہی ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کے کارنامے، شجاعت و بہادری کے قصے تک تاریخ کے اوراق سے غائب ہیں جن میں سے کاکاجی صنوبر حسین ایک منفرد مقام کے حامل ہیرو ہیں۔

کاکاجی صنوبر حسین مومند سال 1897 میں پشاور کے قریبی علاقے کگہ ولہ میں پیدا ہوئے، میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے لیکن انگریز سرکار کی نوکری انہیں راس نہ آئی جس کی اصل وجہ ان کی انقلابی طبیعت تھی۔ انھوں نے نوکری چھوڑ کر عملی سیاست میں حصہ لیا اور کسان مزدور تحریک سے منسلک ہو گئے۔ پھر خدائی خدمتگار تحریک کی جانب آئے اور یہاں سے کانگریس میں شامل ہو گئے لیکن وہاں سے اٹھ کر ایک فارورڈ بلاک کی جانب گئے کیونکہ وہ خالصتاً عدم تشدد کے نظریہ کے قائل نہ تھے، ان کی طبیعت میں کچھ کرنے کی جستجو تھی اور وہ گاندھی جی کے اس فلسفہ کے قائل نہ تھے کہ اگر آپ کو کوئی ایک تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی ان کی جانب کر لو تاکہ وہ خود اپنے عمل پر پشیمان ہو جائے۔

کاکاجی نے ہند کے نوجوانوں کی سبھاء کی رکنیت اختیار کی لیکن جلد ہی وہاں سے جی اچاٹ ہو گیا اور انھوں نے سرحد مین ہی اس طرز کی ایک انجمن بنا لی اور نوجوانوں کو انگریز کی غلامی سے آزادی واسطے تیار کرنا شروع کیا۔ اس انجمن کی سربراہی علامہ عبد الرحیم پوپلزئی صاحب کر رہے تھے جو انگریز سامراج سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اسی طرح خوانین اور نوابوں کے بھی خلاف تھے کیونکہ وہ ان لوگوں کو انگریز کے زر خرید غلام سمجھتے تھے۔

ذرا سا وقت نے پلٹا کھایا تو کاکا جی صنوبر خان نے سبھاش چندر بوس کی رضاکار فورس میں شمولیت اختیار کی اور ہند کی آزادی کے لئے اصل معنوں میں کمر کس لی۔ اس دور میں وہ سیلاب کے نام سے ایک مجلہ نکالا کرتے تھے جس پر انگریز سرکار نے روک لگا دی۔

کاکاجی اردو، پشتو اور فارسی زبان کے پایہ کے دانشور بھی تھے اور اسی رسالہ کی مدد سے نوجوانان ہند میں آزادی کی روح پھونکنا چاہتے تھے تاکہ ملک سامراجی قوتوں کے ہاتھ سے چھڑایا جائے۔

جب سن 1941ء میں سبھاش چندر بوس کے لئے ہندستان میں حالات رہنے کا قابل نہ رہے تو وہ رات کی تاریکی میں اپنا شہر چھوڑ کر پشاور پہنچے اور یہاں سے صنوبر کاکاجی اور ساتھیوں نے انھیں کابل پہنچا دیا جہاں سے سبھاش چندر بوس جرمنی چلے گئے۔ ان دنوں ان کی تحریک کے لئے حالات انتہائی ناسازگار تھے لہٰذا صنوبر خان کاکاجی بھی باجوڑ کی جانب نکل گئے لیکن وہ آرام سے بیٹھنے والے کہاں تھے، وہاں انھوں نے حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ مل کر انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور پھر جب ملک آزاد ہوا تو اپنے علاقہ میں واپس آ گئے۔

انھوں نے ساری زندگی عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کی سعی کی اور لوگوں کو سمجھایا کہ آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہوتی، اس مقصد کے لئے وہ ساری عمر سامراجی قوتوں کے ساتھ برسرپیکار رہے۔ کاکاجی کو پاکستان کی آزادی کے بعد بھی چین نہیں آیا کیونکہ وہ فیض کی بات کہ۔۔ یہ داغ داغ اجالا یہ وہ سحر تو نہیں۔۔ والا قصہ ان کے ساتھ بھی تھا۔

ان کے تحریک آزادی کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی جناب اسلم خان کے نام پر ایل مجلہ شائع کیا جس پر حکومت وقت نے پابندی لگائی، پھر شغلہ کے نام سے ایک پشتو مجلہ جاری کیا لیکن اس میں بھی روڑے اٹکائے گئے۔

وہ ایک نہایت ہی نفیس قسم کے لکھاری تھے اور ان کی تحریروں میں انقلاب نمایاں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہر سرکار ان کے خلاف ہو جاتی تھی۔

انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی رکنیت بھی اختیار کی جس میں ان کے ہمسفر حمزہ بابا اور دوست محمد خان کامل صاحب رہے، ان کو گرفتار کیا گیا اور لاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا گیا لیکن ناسازی طبیعت کی وجہ سے انہیں ہسپتال داخل کرایا گیا اور وہاں سے ان کو اپنے گاؤں لایا گیا جبکہ کچھ ہی دنوں بعد اس عظیم ہستی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔

کاکا جی صنوبر خان 3 جنوری سن 1963ء کو فوت ہوئے اور انھیں اپنے آبائی گاؤں کگہ ولہ میں دفنا دیا گیا۔ ایک زمانہ بعد اس ہیرو کے بارے میں جب ہم نے چھان بین شروع کی تو ان کی قبر اور ان کے قریبی رشتہ داروں تک ہم پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی قبر پر پھول چڑھائے اور تقریباً چار پانچ برس سے مسلسل ان کی یاد میں تقریب کا اہتمام ہوتا ہے اور شعر و ادب کی محفل سجتی ہے جبکہ ان کے افکار اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

ہم اگر ایک زندہ قوم ہیں تو ہمیں اپنے ہیروز کو یاد رکھنا ہو گا جبکہ ان کے افکار کی روشنی میں ایک آزاد معاشرے میں سانس لینے کی جہد مسلسل کو دوام دینا ہو گا۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button