سدرہ ایان
یوں تو ہمارے ڈراموں اور فلموں میں پولیس ڈپارٹمنٹ کا جتنا مذاق اڑایا جاتا ہے شائد کسی دوسرے ڈپارٹمنٹ کا اڑایا جاتا ہو اور یہی فلمیں اور ڈرامیں دیکھ دیکھ کر عوام کی ذہن سازی بھی اس طرح ہو چکی ہے کہ انھیں بھی پولیس میں وہی دکھتا ہے جو ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔ باقی ان کے کام، ان کی محنت اور خطرات سے بھری ان کی زندگی کا احساس اگر کسی کو ہوتا ہے تو وہ صرف ان کے خاندان کو ہوتا ہے۔
حالانکہ یہی لوگ جب کسی مسئلے کا شکار ہو جاتے ہیں تو پولیس کے پاس جا کر ہی شکایت درج کرتے ہیں، شکایت درج کرنے تو پہنچ جاتے ہیں مگر وہاں ایک دوسری غلط فہمی کا شکار بن کے لوٹتے ہیں کہ پولیس نے ان کا کام نہیں کیا۔ پولیس نے ان کا کام کیوں نہیں کیا؟ غلط ہونے کے باوجود بھی ملزم کو رہا کیسے کیا گیا؟ شکایت کے باوجود ملزم کو جیل میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ موبائل چوری ہو گیا، ایف آئی آر کے باوجود بھی موبائل کیوں نہیں مل سکا؟ کیا پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرنے کے بجائے ہم سہتے رہیں لیکن شکایت درج نہ کرائیں؟ کیوں قصوروار آزاد گھومے اور بے گناہ سلاخوں کے پیچھے سڑتا ہے؟
ایسے ہی بہت سے سوالات تھے ذہن میں اور انہی سوالات کے جوابات دینے اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے ساؤتھ ایشیاء پارٹنرشپ جذبہ پروگرام کے تحت عرصہ سے ان تمام اداروں کے ایکسپرٹس کو بلایا جاتا ہے جو ہماری ضرورت میں کام آنے کے لیے ہیں لیکن ہمیں کوئی آگاہی نہیں ہے یا ان کے بارے میں ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں جس کی وجہ سے عوام کا ان اداروں سے یقین اٹھ جاتا ہے اور حق رکھنے کے باوجود بھی مدد سے محروم رہتے ہیں۔
اس بار بھی جذبہ پروگرام نے پولیس ڈپارٹمنٹ سے خواتین پولیس کو مدعو کیا تاکہ وہ ہمارے سارے سوالات کے جوابات واضح کریں اور خواتین کو آگاہی دیں کہ اگر انھیں مشکلات پیش آئیں تو وہ کس طرح الخدمت فاؤنڈیشن جا کر مدد لیں۔
مہرین خاتون نے بتایا کہ آئے روز بہت سے کیسز آتے ہیں جن میں ہراساںی، اغوا برائے تاوان، تیزاب گردی، زبردستی کی شادی کروانا، کم عمری میں شادی کروانا، غگ ایکٹ (جس میں جیسے بچی کی پیدائش ہوتی ہے تو اسے اپنے بیٹے کے نام کروایا جاتا ہے) اور گھریلو تشدد جیسے جرائم شامل ہیں۔
انھوں نے کہا جب کوئی شکایت درج کرنے آ جاتا ہے تو پولیس کا کام صرف اس سے شکایت موصول کر کے عدالت بھیجنا ہوتا ہے پھر ملزم کو سزا سنانا یا بری کروانا عدالت کا کام ہوتا ہے پولیس کا نہیں، لیکن اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ ہماری ایف آئی آر کے باوجود ملزم آزاد گھوم رہا ہے ہماری پولیس کچھ نہیں کر رہی، حالانکہ پولیس کو پتہ ہوتا ہے لیکن وہ اس معاملے میں بے بس ہوتے ہیں، وہ وہی کرتی ہے جس کا عدالت سے حکم ملتا ہے۔
موبائل چوری ہونے پر ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود موبائل کیوں نہیں ملتا کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ پولیس ایف آئی آر درج کروا لیتی ہے لیکن موبائل کا پتہ اس وقت لوکیٹ ہو سکتا ہے جب اس میں کوئی سِم لگا دیتا ہے جب تک موبائل سوئچڈ آف ہو تو موبائل کو لوکیٹ نہیں کیا جا سکتا، دوسری بات یہ کہ آج کل آسانی سے موبائل کا آئی ایم ای نمبر تبدیل کیا جاتا ہے جس کے بعد موبائل کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
انھوں نے کہا کہ پہلے کسی بھی تھانے میں خاتون پولیس نہیں ہوتی تھی اس لیے جب اگر کوئی خاتون شکایت درج کروانے جاتی تو اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی، اکثر میل پولیس کہتے کہ گھریلو جھگڑا ہے ختم ہو جائے گا لیکن اب ہر سٹیشن میں ایک پولیس اہلکار ہوتی ہے جس کے پاس خواتین جا کر اپنے شکایات درج کروا سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون گھریلو تشدد کی شکایت درج کروانے آتی ہے تو ہم پہلے اس کے زخم دیکھتے ہیں بعض اوقات ہم ہر کیس پر بھروسہ نہیں کرتے اس لیے ہم پہلے ملزم جس کے اوپر کیس کیا گیا ہو اس سے فون پر بات کرتے ہیں اس کے بعد جائے وقوعہ جا کر مزید تفتیش کرتے ہیں تاکہ کسی عزت دار بندے کی عزت پر کوئی آنچ نہ آئے۔
انھوں نے بتایا کہ شکایت درج کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ پولیس سٹیشن جائیں گی، اپنی شکایت تحریری شکل میں درج کریں گی، اگر تشدد کی شکایت درج کروانی ہو تو خاتون اہلکار پہلے زخم چیک کریں گی، جس پر کیس درج ہوا ہو اس سے پہلے فون پر بات ہوتی ہے اس کے بعد اس کے پیچھے جانا ہوتا ہے یا پولیس سٹیشن بلوانا ہوتا ہے، یکم جون 2020 سے لے کر اب تک ایک ہزار چھیانوے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں چار سو پانچ ایف آئی آرز شامل ہیں۔
مس مہرین نے بتایا کہ ہمارے پاس سائیکالوجسٹ نہیں ہے البتہ پولیس سٹیشن میں سائیکالوجسٹ کا ہونا بہت ضروری ہے کہ جب کوئی خاتون شکایت لےکر آئے وہ پریشان ہو اور تشدد کا شکار ہو تو اسے سائیکالوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے، اب تک کے پی میں خواتین پولیس اہلکار کی تعداد 72 ہے جو کہ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے سر انجام دے رہی ہیں۔
انھوں نے کچھ ایسے کیسز کا بھی ذکر کیا جن میں کوئی بچی لاپتہ ہوئی تھی اور یہی خواتین پولیس روزانہ صبح نکلتی اور ایک ایک گھر کی تلاشی لیتی تھی اور ایسے بہت سے کیسز تھے جن میں بچیوں کو اغوا کروانے میں یا زیادتی کا نشانہ بنانے میں ان کے اپنے یا پڑوسی ملوث تھے۔
ایک گھنٹے کے سیشن میں انھوں نے بہت سی باتوں کی وضاحت دی اور خاص طور اس غلط فہمی کا خاتمہ کیا کہ مجرم کو سزا دینا پولیس کا نہیں قانون کا کام ہے، پولیس تب ہی کسی کو جیل میں ڈالتی ہے جب عدالت اسے سزا دینے کا حکم کرتی ہے اور جب عدالت کسی کو بری کر دے تو پولیس چاہ کر بھی اس ملزم کو سزا نہیں دے سکتی لہذا عام عوام کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو عزت دیں جس کا وہ حقدار ہے۔