محمد سہیل مونس
حالیہ دور حساس لوگوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں، اس کی اذیت اتنی سخت ہے کہ برداشت کرتے ہوئے آنکھ سے خودبخود نم چھلک ہی جاتے ہیں جبکہ احساس سے عاری لوگ دو انتہاؤں پر ہوتے ہیں؛ یا تو خاموشی سے سارے حالات و واقعات کو ایک جانب رکھ کر حال ہی میں جی کر مستقبل کی پرواہ کئے بغیر بڑے سُر میں زندگی گزار لیتے ہیں یا پھر ہر چھوٹی موٹی اور وقتی خوشی پر جھوم اٹھتے ہیں اور اسے زندگی کا حاصل سمجھ کر جینے لگتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ بھی کچھ ایسے ہی فیز سے گزر رہا ہے جہاں احساس سے عاری لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس جاہل معاشرے میں حساس لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
ہمارے ہاں خوشحال خان خٹک نے اپنے دور میں اپنی قوم کی عقل پہ اکثر ماتم کیا ہے جو ان کے اشعار اور تحریروں سے واضح ہے۔ اسی طرح دوسری اقوام کے بڑوں نے بھی اکثر ان کی نادانی کا سوگ منایا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں حالیہ دور میں غفار خان بابا سے لے کر ڈاکٹر مہدی حسن، پرویز ہود بھائی اور ایسے لاتعداد دانشوروں اور سکالرز کو دیکھا ہے جنھوں نے اپنی زندگی اس عقل سے عاری معاشرے میں بڑے کرب میں گزاری ہے۔
سن 1988 کی بات ہے مین اپنے والد کے ساتھ دریائے پنجگوڑہ کے کنارے ایک جگہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا جس میں ایک دانشور کی پیش گوئی تحریر کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دور میں برصغیر پاک و ہند کے ہیروز اداکار اور کرکٹرز ہوں گے جبکہ عوام اصل ہیروز کو پس پشت ڈال کر ان لوگوں کی اندھی تقلید کریں گے۔
آج تقریباً 35 سال بعد اس پیش گوئی کے اثرات ہم ملاحظہ کر رہے ہیں؛ کوئی سائنسدان پہلے اس خطے میں پیدا نہیں ہوتا اور اگر خوش قسمتی سے ہو بھی جائے تو اس کی قدر و منزلت سلمان خان اور عمران خان جتنی نہیں ہوتی۔ اس بچارے کی ریسرچ کو کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا بالآخر رخت سفر باندھ کر یورپ کی اور چل نکلتا ہے جبکہ سلمان خان کی فلموں کی ایک بکواس فلم بھی اربوں روپے کما لیتی ہے اور عمران خان تیس سال پرانے جیتے ہوئے ورلڈ کپ کے سہارے 30 سال تک مفت کی کھاتا اور کماتا جاتا ہے۔
ہم پڑوسی ملک کی کیا بات کریں اب تو وہ کافی آگے نکل گیا ہے لیکن اپنی حالت دیکھ کر شدید قسم کا افسوس ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو ایک جانب 45 برس پرائی جنگ کا ایندھن بنتے رہے اور دوسری جانب قوم پر الو مسلط کئے جاتے رہے۔ اب کی بار ایک ایسے بندے سے مسلط کرنے والوں کا پالا پڑا ہے جس کی سپیڈ 70 برس کی عمر میں بھی 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کم نہیں ہو رہی، ان کو یہ راسخ گمان تھا کہ ہم پہلے کے مفادپرستوں کی طرح خان کو بھی گولیاں دیتے پھریں گے اور وہ اچھا بچہ بن کر سنتا رہے گا۔
یہ اب مکافات عمل کا فیز ہے جس سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے، ہم بڑے سکون سے تھے جب افغانستان بارود کی آگ میں جھلس رہا تھا اور ہمارے ہاں ڈالروں کی بارش تھی تو بڑا مزہ آ رہا تھا، اب ساری قوم بھگت رہی ہے جبکہ قوم نے اپنے سجیلے جوانوں کو اس طرح کے ڈراموں میں کام کرنے کی اجازت قطعی طور پر نہیں دی تھی۔
خیر ایک دور تھا گزر گیا۔ ہم نے دونوں جانب اپنی سرحدوں پر دشمنی کے نئے سلسلوں کو دوام دیا لیکن سیاسی طور پر بھی ہم بڑے نہ ہوئے، ہمیں ذرا سی مدت بعد کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا لیا جاتا ہے اور ہم عقل کے اندھے اس ڈھکوسلے کو سچ مان کر اپنا قیمتی وقت پھر سے ضائع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
کل پرسوں کسی صحافی نے خان صاحب سے پوچھا کہ آپ کے لانگ مارچ کے چیدہ چیدہ مقاصد کیا ہیں تو بتایا کہ امپورٹڈ حکومت سے جاں خلاصی اور فری اینڈ فیئر الیکشن اور وہ بھی جلد از جلد!
ہمیں انتخاب کی نہیں انقلاب کی ضرورت ہے جی! ایسے انقلاب کی جس میں ہر چیز طے ہو جائے مثلاً اداروں کی حدود و قیود، آئین کی بالادستی، قانون کا اصل معنوں میں نفاذ، آزادی اظہار رائے کا حق، بنیادی انسانی ضرورتوں کے پورا کرنے کا انتظام اور عوام کی جان و مال کا تحفظ۔، اب اگر بات صرف حکومت کا حصول ہے تو پچھلے ساڑھے تین برس میں کیا دیا عوام کو کہ اس کے بعد بھی لوگ آپ پر اعتماد کریں۔
یہ بات تو میں قارئین کے سامنے ہزار بار رکھ چکا ہوں کہ آپ کا ہمدرد نہ سیاسی لوگوں میں آپ کو ملے گا نہ افسرشاہی میں نہ مذہبی لبادہ اوڑھے لوگوں میں نہ منصفوں میں اور نہ محافظوں میں، اگر آپ نے اپنا آپ اور آئندہ کی نسلیں بچانی ہیں تو ذرا سی عقل استعمال کرنا ہو گی۔
ان لوگوں کے کرتوت اور کارنامے روز روشن کی طرح عیاں ہیں سب کے سب ننگے ہو چکے ہیں اب کوئی بھی جواز نہیں رہا کہ ان لوگوں کو بغیر احتساب اور قانونی چارہ جوئی کے چھوڑا جائے، اگر اس مارچ کو کامیاب بنانا ہے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے، یہ کیا کہ چہرے بدل بدل کر وار کرو اور پھر ہمدردی جتانے بھی آؤ۔
پاکستان اس وقت اس موڑ پر ہے کہ اگر اس وقت کوئی ڈھنگ کا فیصلہ عوام نے لے لیا تو بچنے کی امید ہے ورنہ اندرونی طور پر انگریز باقیات اور بیرونی طور پر دوسرے دشمن تیار بیٹھے ہیں ہمارے حصے بخرے کرنے کو، میں یہ دعا بھی نہیں مانگوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے کیوںکہ ہم خود پر پچھلے 75 برس سے اپنے اوپر رحم نہیں کر رہے تو خدا سے طلب کرنے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔
نوٹ: مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں