بلاگزتعلیم

تاج محمد سینٹری ورکر سے اسسٹنٹ ڈپٹی ڈائریکٹر تک کا سفر

 

حمیراعلیم

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
احمد فرازکا شعر ہے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ہر انسان کے کچھ خواب ہوتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے وہ محنت بھی کرتا ہے مگر ان کی تعبیر ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کر پاتے ہیں۔ محنت کے ساتھ ساتھ قسمت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی کام کو کرنے کی ٹھان لے تو کوئی رکاوٹ اس کے رستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔پاکستان میں ہمیں ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند ماہ پہلے پشین بلوچستان کے
تاج محمد ایک مسابقتی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اسی ادارے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں بطور ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہو گئے ہیں جہاں سے اُنھوں نے سنہ 2003 میں اپنا سفر بطور سینیٹری ورکر شروع کیا تھا۔تقریباً 19 برسوں پر محیط یہ سفر تھکا دینے والا تھا اور اس دوران اُن کے سامنے مشکلات بھی آئیں مگر انہیں اپنی محنت کا ثمر مل گیا۔

ایسا ہی ایک گوہر نایاب کے پی کے سے تعلق رکھنے والے اختر نواز بھی ہے جو سیکیورٹی گارڈ سے یونیورسٹی کے لیکچرار بن گئے۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں اختر نواز کا کہنا تھا :”میری نوکری ہوئی تو اس وقت میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہوئی تھی لیکن پڑھنے کا جنون لیے میں محنت کرتا رہا اور یونیورسٹی میں گارڈ کی نوکری کےساتھ اپنی تعلیم جاری رکھی۔ جب میرا ایم فل میں داخلہ ہوا تو میں نے اپنی شفٹ تبدیل کر کے رات میں کروا لی تھی اور ریگولر کلاسز لینا شروع کر دی تھیں، دو سے اڑھائی سال تک رات کی مسلسل نوکری کی جبکہ میرے گھر والوں نے میری پوری مدد کی ہے۔ جب میرا ایم فل مکمل ہوا تو یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے مجھے کہا کہ آپ ہمارے لیے ٹیچنگ کریں پہلے تو مجھے عجیب سا لگا لیکن پھر پوری تیاری کے ساتھ کام شروع کر دیا اب میرا مقصد پی ایچ ڈی مکمل کرنا ہے ۔ سیکیورٹی گارڈ سے لیکچرار کا سفر کافی مشکل تھا لیکن اگر انسان میں کچھ کرنے کی لگن ہو تو پھر قدرت بھی اس کی مدد کرتی ہے ۔”

ان کا کہنا ہے کہ ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی بھی کروں گا اور اگر جامعہ نے سیکورٹی کو بہتر بنانے کا موقع دیا تو ضرور بہتری لاوں گا ۔ ایم فل کے بعد جامعہ کی انتظامیہ نے قوانین کے مطابق مجھے گریڈ 16 کا لیٹر دے دیا ہے اور امید ہے اب تنخواہ بھی بڑھے گی اور الاونس ملے گا ۔
اس کامیابی میں میرے والدین کی دعائیں ہیں اور میری استانی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ناعمہ سعید کی محنت ہے ۔”وہ 4 بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں اور ان کی 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔10 افراد کے کنبے کی کفالت کرنے والے باہمت ، ذی شعور اور تعلیم یافتہ سیکورٹی گارڈ کا کہنا ہے کہ خالد محمود عراقی صاحب کے دور میں بھرتی ہوا تھا آج وہ وائس چانسلر ہیں یقیناً انہیں بھی میرے بارے میں سن کر خوشی ہو گی ۔”
جامعہ کراچی شعبہ سیکورٹی کے ملازم اختر نواز خٹک کو 2009 میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے انٹرمیڈیٹ تعلیم کی بنیاد پر سیکورٹی گارڈ بھرتی کیا تھا اس دور میں ڈاکٹر خالد عراقی سیکورٹی ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے جس کے بعد اختر نواز خٹک نے ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ گریجویشن کیا۔ بعد ازاں ایم اے کرمنالوجی میں داخلہ لیا اور جامعہ سے باقاعدہ اجازت لےکر دن کی ڈیوٹی انجام دی اور ایوننگ میں ریگولر طالب علم کے طور پر پڑھائی کی اور یوں ایم اے مکمل کیا تھا۔
انہوں نے” اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی” کے موضوع پر تحقیق کر کے ایم فل کی ڈگری لی۔
تاج محمد اور اختر نواز پاکستانی بچوں کے لیے مثال ہیں کہ کیسے نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود انسان علم کے ذریعے ترقی کے منازل طے کر کے شہرت، عزت اور دولت حاصل کر سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button