محمد سہیل مونس
پاکستان میں اس وقت ایسے حالات ہیں جس کی مثال ایک عرصہ قبل میں اپنی تحریر میں ایک واقعہ کے توسط سے دے بھی چکا ہوں اور آج کی تحریر میں ایک بار پھر سے اس کو دہرانا چاہوں گا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو عوام کی خبر گیری رکھنے کے لئے مدینہ کی گلیوں میں شام ڈھلے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ ان کا ایک واقعہ نہایت ہی مشہور ہے جو ہر خاص و عام نے ضرور سنا ہو گا۔ وہ واقعہ تھا ایک بوڑھی عورت کا جن کے اردگرد بچے بیٹھے رو رہے تھے اور بھوک کی وجہ سے نڈھال تھے۔ وہ بوڑھی عورت انھیں دلاسہ دے دے کر خاموش کرا رہی تھی کہ ہانڈی بن جائے تو کھا لینا اور وہ اسی حالت میں سو جاتے ہیں۔ اس دوران حضرت عمر اور ان کا خادم اس بڑھیا کے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور ان سے باز پرس کرتے ہیں کہ اے بڑھیا! ہم کافی وقت سے آپ کو دیکھ رہے تھے کہ آپ نے بچوں کو کھانے کو دیا کچھ بھی نہیں لیکن دلاسہ دے دے کر سلا دیا۔ اس عورت نے حاکم وقت کو دہائی دی اور بتایا کہ میں تقریباً دو تین روز سے یہی کرنے پر مجبور ہوں، گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں، یہ جو ہانڈی ہے اس میں بھی پانی و پتھر ڈال کر چولہے پہ چڑھا رکھا ہے تاکہ ان کی امید بندھی رہے کہ کچھ نہ کچھ تو بن رہا ہے۔ حضرت عمر کی آنکھیں نم تھیں اپنے خادم کے ساتھ گئے اور بیت المال سے اپنی پیٹھ پر اناج لاد کر اس بڑھیا تک پہنچایا اور آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ ہی اس گھر سے نکلے۔
حضرت عمر کا ہی کہنا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی رات کو بھوکا سوئے گا تو روز قیامت اس کی بازپرس مجھ سے ہو گی۔
اب ذرا اس مثال کو پاکستان کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ ہانڈی جو بڑھیا نے چولہے پر چڑھائی ہوئی تھی وہ ملکی خزانہ تھا جو کشکول کا روپ دھار چکا ہے جس میں قرض کی رقم کے سوا کچھ بھی نہیں آتا اور آ کر کہاں جاتا ہے اس کا اتہ پتہ ہی نہیں۔ اس کے انتظار میں بیٹھے بچے عوام ہیں اور سیاستدان اس بڑھیا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب اس بڑھیا کا بچوں کو بہلانا چاہے اچھی نیت سے تھا یا برے سے لیکن یہ بات طے تھی کہ معاشی حالت بالکل بھی صحیح نہیں تھی۔ اس وقت پاکستانی عوام کو بھوک و افلاس سے نجات کی پڑی ہوئی ہے وہ دوسری ساری عیاشیاں بھول کر پیٹ کا دوذخ بھرنے کی کوشش میں ہیں اور سیاستدان ان کے ساتھ بڑھیا والا کھیل کھیل رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا عمران خان صاحب کو توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دینا ایک مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں! سب سے پہلی بات تو یہ کہ نواز شریف اور زرداری صاحبان کے علاوہ پی ڈی ایم کے دیگر لوگوں سے بھی تو حساب کتاب ہو جو ملک کھا گئے اور ڈکار تک نہیں لی۔
نواز شریف صاحب کا کہنا کہ الحمداللہ! یہ ہیں وہ ثبوت اور اثاثے، پھر ایک ہی سٹامپ پیپر پر رفوچکر ہو گئے، جن جن کی آف شور کمپنیز نکلیں ان کا بھی کوئی بال بیکا نہ کر سکا۔ عوام احتساب کے ڈر سے بیمار ہونے والے بدعنوان عناصر کو بھولے نہیں ہوں گے جن پر اربوں روپے کی خوردبرد کے کیسز تھے، اب یہ عوام نے پوچھنا چاہے کہ کیا اس وقت عدالتیں غلط تھیں جو سیاسی لوگوں پر کیسز بنائے یا پھر ملک کے اصل کرتا دھرتا، اس لئے کہ آج کی حکومت میں وہی لوگ پھر سے اکٹھے ہیں جن کے خلاف بدعنوانی کی بڑی بڑی سکیمیں مشہور ہوئیں۔
ہم اگر سزاء و جزاء کے معاملے میں اپنی عدالتوں کا معیار دیکھیں تو۔۔، سب آپ کے سامنے ہے۔ دوسرے عمران خان جیسے لاابالی شخص کو تو عنان اقتدار سونپنا ہی انتہاء درجہ کی غلطی تھی جو کرتا دھرتا سے ہو چکی جسے اب وہ بھگت بھی رہے ہیں لیکن فارن فنڈنگ کیس اور اس طرح کی بیسیوں باتیں جو وہ کھلے عام جلسے جلوسوں میں کرتا چلا آ رہا ہے کیا ان پر آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا؟
عوام الیکشن کمیشن کے اس کردار کو بھی مدنظر رکھیں کہ ایک عام آدمی کے لئے انتخاب لڑنے واسطے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن پاکستانی اشرافیہ جن میں کسی کو 23 مارچ، قرارداد مقاصد، دعاء قنوت، نماز کے فرائض اور سنت تو چھوڑیں قرآن پڑھنا بھی صحیح طور پر نہیں آتا وہ مملکت خداداد کے بڑے بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب ان حالات میں جب الیکشن کمیشن اتنی سی بات کو بنیاد بنا کر خان صاحب کو سائیڈ لائن کرنے کی لاحاصل کوشش کر رہا ہے وہ پھوڑا اب ناسور کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی سرائیت پورے معاشرے میں ہو چکی ہے، اب اس زحمت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس وقت اگر پاکستان کو بچانا اور چلانا ہے تو چند ہی چیزوں پہ فی الحال دھیان دینے کی ضرورت ہو گی؛ پہلی تو یہ کہ پاکستانی عدالتوں میں میرٹ پر تقرریاں کی جائیں، انہیں انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے لینے کے لئے فل پروف سیکیورٹی اور ماحول فراہم کیا جائے، پھر احتساب کا عمل تیز تر کر کے لوٹی ہوئی دولت سمیٹ کر خزانہ میں ڈالی جائے۔ اس کے بعد صاف و شفاف الیکشنز منعقد کر کے عوامی نمائندوں کو عنان اقتدار سونپی جائے، احتساب نہ صرف سویلین حضرات کا ہو بلکہ فوج، بیوروکریٹس، ججز اور تمام سطح پر بھرپور قسم کا احتساب ہو۔
قانون کو مذاق سمجھنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ان تمام باتوں سے زیادہ ضروری ہے۔ اس زمرے میں اگر ججز بھی آتے ہیں جو غلط فیصلے لے کر کسی کا سیاسی کرئیر تباہ کرنے یا زندگی اجیرن بنانے کا سبب بنتے ہیں انھیں بھی قانون سے کھیلنے پر سزاء کا رواج اب قائم ہونا چاہیے تاکہ قانون و انصاف کی بالادستی ہو تو بات بنے۔
ان حالات میں مزید ڈرامہ بازیوں کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک جزیرے خریدنے والوں سے لے کر لندن فلیٹس اور سرائے محل جیسی جگہوں کا حساب کتاب نہیں ہو جاتا اور بدعنوان عناصر کیفرکردار تک نہیں پہنچتے یہ ملک ترقی کی راہ گامزن پر گامزن نہیں ہو سکے گا بلکہ حالات گر جوں کے توں رہے تو خدانخواستہ جلد ہی پارہ پارہ ہو جائے گا۔
نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں